مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏”‏وفادار آدمیوں“‏ کی تربیت کریں

‏”‏وفادار آدمیوں“‏ کی تربیت کریں

‏”‏وفادار آدمیوں کو وہ باتیں سکھائیں جو آپ نے مجھ سے سنی ہیں .‏ .‏ .‏۔‏ اِس طرح وہ دوسروں کو تعلیم دینے کے لائق بنیں گے۔‏“‏‏—‏2-‏تیمُتھیُس 2:‏2‏۔‏

گیت:‏ 42،‏  53

1،‏ 2.‏ بہت سے ملکوں میں پیشے اور عہدے کو اہم خیال کیوں کِیا جاتا ہے؟‏

بہت سے ملکوں میں لوگوں کی حیثیت کا اندازہ اُن کے پیشے یا عہدے سے لگا‌یا جاتا ہے اور لوگ پہلی ملا‌قات پر ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ ”‏آپ کیا کرتے ہیں؟‏“‏

2 بائبل میں کبھی کبھار ایک شخص کی شناخت کرنے کے لیے اُس کے نام کے ساتھ اُس کے پیشے کا بھی ذکر آتا ہے،‏ مثلاً ”‏متی جو ٹیکس وصول کرتے تھے،‏“‏ ’‏شمعون جو چمڑا تیار کرتے تھے‘‏ اور ”‏عزیز معالج لُوقا۔‏“‏ (‏متی 10:‏3؛‏ اعمال 10:‏6؛‏ کُلسّیوں 4:‏14‏)‏ اِس کے علا‌وہ بائبل میں کبھی کبھار ایک شخص کے نام کے ساتھ اُس ذمےداری یا شرف کا بھی ذکر آتا ہے جو اُسے یہوواہ کی خدمت میں حاصل تھا،‏ مثلاً داؤد بادشاہ،‏ ایلیاہ نبی اور پولُس رسول۔‏ یہ آدمی اُن ذمےداریوں کی قدر کرتے تھے جو اُنہیں یہوواہ کی طرف سے ملی تھیں۔‏ ہمیں بھی اُن ذمےداریوں کی قدر کرنی چاہیے جو ہم یہوواہ کی خدمت میں انجام دے رہے ہیں۔‏

3.‏ عمررسیدہ بھائیوں کو جوان بھائیوں کی تربیت کیوں کرنی چاہیے؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

3 بِلا‌شُبہ ہم اُن ذمےداریوں کو بڑے شوق سے پورا کرتے ہیں جو ہمیں یہوواہ کی خدمت میں حاصل ہیں۔‏ ہو سکتا ہے کہ ہمیں ایک ذمےداری کو نبھانا اِتنا اچھا لگتا ہے کہ ہمارا جی کرتا ہے کہ ہم اِسے ہمیشہ تک نبھاتے رہیں۔‏ لیکن آدم کے زمانے سے یہ سلسلہ چلا آ رہا ہے کہ ایک پُشت بوڑھی ہو جاتی ہے اور آخرکار ایک نئی پُشت اِس کی جگہ لے لیتی ہے۔‏ (‏واعظ 1:‏4‏)‏ اِس وجہ سے کچھ مشکلا‌ت پیدا ہو سکتی ہیں۔‏ مثال کے طور پر آج مُنادی کا کام بہت ہی بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے اور ہماری تنظیم بادشاہت کی خوش‌خبری کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور نئے طریقۂ‌کار اِستعمال کر رہی ہے۔‏ لیکن شاید عمررسیدہ بہن بھائیوں کو ٹیکنالوجی اور نئے طریقۂ‌کار اِستعمال کرنا آسان نہ لگے۔‏ (‏لُوقا 5:‏39‏)‏ اِس کے علا‌وہ بڑھتی عمر کے ساتھ اِنسان میں وہ توانائی نہیں رہتی جو جوانی میں ہوتی ہے۔‏ (‏امثال 20:‏29‏)‏ اِس لیے عمررسیدہ بھائیوں کو جوان بھائیوں کی تربیت کرنی چاہیے تاکہ وہ بھی ذمےداریاں اُٹھانے کے قابل بن جائیں۔‏ یہی دُوراندیشی اور محبت کی راہ ہے۔‏‏—‏زبور 71:‏18 کو پڑھیں۔‏

4.‏ کچھ بھائیوں کو اپنی ذمےداریاں دوسروں کے سپرد کرنا آسان کیوں نہیں لگتا؟‏ (‏بکس ”‏ کچھ بھائی اپنی ذمےداریاں دوسروں کے سپرد کرنے سے کیوں ہچکچاتے ہیں؟‏‏“‏ کو دیکھیں۔‏)‏

4 کچھ بھائیوں کو اپنی ذمےداریاں اپنے سے کم عمر بھائیوں کے سپرد کرنا آسان نہیں لگتا۔‏ اِس کی بہت سی وجوہات ہیں۔‏ مثال کے طور پر کچھ بھائیوں کو وہ کام بہت اچھا لگتا ہے جو وہ نبھا رہے ہیں اور اِسے چھوڑنے کے خیال سے ہی اُنہیں دُکھ ہوتا ہے۔‏ بعض بھائیوں کو اپنے شرف سے بڑا لگاؤ ہوتا ہے اور وہ اِس سے سبکدوش نہیں ہونا چاہتے۔‏ کبھی کبھار بھائیوں کو یہ خدشہ بھی ہوتا ہے کہ دوسرے شاید اُن کی ذمےداری کو اچھی طرح سے نہیں نبھا پائیں گے۔‏ یا پھر اُن کا خیال ہے کہ اُن کے پاس دوسروں کی تربیت کرنے کے لیے وقت نہیں ہے۔‏ اور جہاں تک جوان بھائیوں کی بات ہے،‏ جب اُنہیں مزید ذمےداریاں نہیں دی جاتیں تو اُنہیں صبر سے کام لینا چاہیے۔‏

5.‏ اِس مضمون میں ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟‏

5 مگر یہ اہم کیوں ہے کہ عمررسیدہ بھائی جوان بھائیوں کو مزید ذمےداریاں سنبھالنا سکھائیں؟‏ وہ ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟‏ (‏2-‏تیمُتھیُس 2:‏2‏)‏ اور جب جوان بھائی عمررسیدہ بھائیوں کے ساتھ مل کر کلیسیا کا کوئی کام کرتے ہیں تو اُنہیں کیسا رویہ اپنانا چاہیے؟‏ اِس مضمون میں ہم اِن سوالوں پر غور کریں گے۔‏ لیکن آئیں،‏ پہلے دیکھتے ہیں کہ داؤد بادشاہ نے اپنے بیٹے کو ایک اہم ذمےداری نبھانے کے لیے کیسے تیار کِیا۔‏

داؤد کی عمدہ مثال

6.‏ بادشاہ داؤد کیا کرنا چاہتے تھے مگر یہوواہ خدا نے اُن سے کیا کہا؟‏

6 داؤد کئی سال ایک جگہ سے دوسری جگہ بھٹکتے پھرنے کے بعد بادشاہ بن گئے اور ایک محل میں رہنے لگے۔‏ اُنہیں اِس بات پر بہت افسوس تھا کہ یہوواہ خدا کے لیے کوئی گھر نہیں تھا۔‏ اُنہوں نے ناتن نبی سے کہا:‏ ”‏مَیں تو دیودار کے محل میں رہتا ہوں پر [‏یہوواہ]‏ کے عہد کا صندوق خیمہ میں ہے۔‏“‏ داؤد یہوواہ کے لیے ایک شان‌دار گھر بنانا چاہتے تھے اور ناتن نبی نے اُن سے کہا:‏ ”‏جو کچھ تیرے دل میں ہے سو کر کیونکہ خدا تیرے ساتھ ہے۔‏“‏ لیکن یہوواہ خدا اِس سے راضی نہیں تھا۔‏ اُس نے ناتن نبی کے ذریعے داؤد کو یہ پیغام دیا:‏ ”‏تُو میرے رہنے کے لئے گھر نہ بنانا۔‏“‏ حالانکہ یہوواہ نے داؤد سے وعدہ کِیا کہ وہ ہمیشہ اُن کا ساتھ دے گا لیکن اُس نے ہیکل تعمیر کرنے کا شرف داؤد کو نہیں بلکہ اُن کے بیٹے سلیمان کو دیا۔‏ اِس پر داؤد کا ردِعمل کیا رہا؟‏—‏1-‏تواریخ 17:‏1-‏4،‏ 8،‏ 11،‏ 12؛‏ 29:‏1‏۔‏

7.‏ جب داؤد کو ہیکل بنانے سے منع کِیا گیا تو اُن کا ردِعمل کیا رہا؟‏

7 داؤد اِس بات پر خفا نہیں ہوئے کہ خدا کی ہیکل کو تعمیر کرنے کا سہرا اُن کے سر نہیں جائے گا۔‏ اور واقعی،‏ جو ہیکل بنی،‏ وہ سلیمان کی ہیکل کے نام سے مشہور ہو گئی۔‏ حالانکہ داؤد کو اپنی دلی خواہش پوری کرنے کا موقع نہیں ملا لیکن اُنہوں نے ہیکل کو تعمیر کرنے کے منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے بہت محنت کی۔‏ اُنہوں نے ہنرمند کاریگروں کا بندوبست کِیا اور بڑی مقدار میں لوہا،‏ پیتل،‏ چاندی،‏ سونا اور لکڑی جمع کی۔‏ اِس کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے یہ کہہ کر سلیمان کا حوصلہ بھی بڑھایا کہ ”‏اَے میرے بیٹے [‏یہوواہ]‏ تیرے ساتھ رہے اور تُو اِقبال‌مند ہو اور [‏یہوواہ]‏ اپنے خدا کا گھر بنا جیسا اُس نے تیرے حق میں فرمایا ہے۔‏“‏—‏1-‏تواریخ 22:‏11،‏ 14-‏16‏۔‏

8.‏ ‏(‏الف)‏ داؤد کو کیوں لگا ہوگا کہ سلیمان ہیکل کو تعمیر کرنے کی ذمےداری نہیں اُٹھا پائیں گے؟‏ (‏ب)‏ اِس خدشے کے باوجود داؤد نے کیا کِیا؟‏

8 پہلی تواریخ 22:‏5 کو پڑھیں۔‏ ہو سکتا ہے کہ داؤد کو لگا ہو کہ سلیمان اِتنی بھاری ذمےداری نہیں اُٹھا پائیں گے۔‏ دراصل سلیمان ابھی ’‏لڑکے اور ناتجربہ‌کار‘‏ تھے اور اُن کے کندھوں پر ”‏نہایت عظیم‌اُلشان“‏ ہیکل بنانے کی ذمےداری تھی۔‏ لیکن داؤد کو پکا یقین تھا کہ یہوواہ خدا اِس کام کو انجام دینے میں سلیمان کی مدد کرے گا۔‏ اِس لیے داؤد نے دل‌وجان سے اِس تعمیراتی منصوبے کو فروغ دیا اور اِس کے لیے بہت سارا سامان جمع کرایا۔‏

خوشی سے دوسروں کی تربیت کریں

ہم یہ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ جوان بھائی مزید ذمےداریاں اُٹھانے کے لائق بن گئے ہیں۔‏ (‏پیراگراف 9 کو دیکھیں۔‏)‏

9.‏ عمررسیدہ بھائی اپنی ذمےداریاں جوان بھائیوں کے سپرد کرتے وقت خوش کیوں ہو سکتے ہیں؟‏ مثال دے کر واضح کریں۔‏

9 جب عمررسیدہ بھائیوں کو اپنی ذمےداریاں جوان بھائیوں کے سپرد کرنی پڑتی ہیں تو اُنہیں بےحوصلہ نہیں ہونا چاہیے۔‏ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ یہوواہ کا کام پورا ہو۔‏ مگر یہ کام تب ہی آگے بڑھے گا جب جوان بھائیوں کو ذمےداریاں اُٹھانے کے لیے تربیت دی جائے گی۔‏ ذرا اِس سلسلے میں غور کریں کہ ایک باپ اپنے بیٹے کو گاڑی چلا‌نا کیسے سکھاتا ہے۔‏ جب بیٹا چھوٹا ہوتا ہے تو وہ گاڑی میں بیٹھے اپنے ابو کو ڈرائیونگ کرتے دیکھتا ہے۔‏ جوں‌جوں بیٹا بڑا ہوتا ہے،‏ باپ اُسے سمجھانے لگتا ہے کہ گاڑی کیسے چلا‌ئی جاتی ہے۔‏ جب بیٹا بالغ ہو جاتا ہے تو وہ لائسنس لے کر خود گاڑی چلا‌نے لگتا ہے لیکن اِس کے بعد بھی اُس کا باپ اُسے ہدایتیں دیتا رہتا ہے۔‏ اب جب باپ بیٹا کہیں جاتے ہیں تو کبھی بیٹا گاڑی چلا‌تا ہے اور کبھی باپ۔‏ لیکن جوں‌جوں باپ کی عمر بڑھتی ہے،‏ وہ زیادہ‌تر وقت اپنے بیٹے کو گاڑی چلا‌نے کا کہتا ہے اور اُسے یہ ذمےداری سونپتے وقت خوشی محسوس کرتا ہے۔‏ اِسی طرح عمررسیدہ بھائی یہ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ جن جوان بھائیوں کو اُنہوں نے تربیت دی تھی،‏ اب وہ اپنی ذمےداریاں اِتنی اچھی طرح سے نبھا رہے ہیں۔‏

10.‏ موسیٰ عزت اور اِختیار کے سلسلے میں کیسی سوچ رکھتے تھے؟‏

10 جب جوان بھائیوں کو کوئی شرف دیا جاتا ہے تو عمررسیدہ بھائیوں کو محتاط رہنا چاہیے کہ وہ اِن سے جلنے نہ لگیں۔‏ غور کریں کہ جب کچھ اِسرائیلی نبوّت کرنے لگے تو موسیٰ کا کیا ردِعمل تھا۔‏ ‏(‏گنتی 11:‏24-‏29 کو پڑھیں۔‏)‏ دراصل یشوع اِن اِسرائیلیوں کو روکنا چاہتے تھے کیونکہ اُن کو لگ رہا تھا کہ اِن کی وجہ سے موسیٰ کی عزت اور اِختیار میں کمی آئے گی۔‏ لیکن موسیٰ نے کہا:‏ ”‏کیا تجھے میری خاطر رشک آتا ہے؟‏ کاش [‏یہوواہ]‏ کے سب لوگ نبی ہوتے اور [‏یہوواہ]‏ اپنی روح اُن سب میں ڈالتا۔‏“‏ موسیٰ جانتے تھے کہ اِس کے پیچھے یہوواہ کا ہاتھ ہے۔‏ وہ خود کو بڑا سمجھنے کی بجائے یہ چاہتے تھے کہ یہوواہ کے تمام خادموں کو کوئی نہ کوئی شرف ملے۔‏ جب دوسروں کو کوئی شرف دیا جاتا ہے تو ہمارا ردِعمل کیا ہوتا ہے؟‏ کیا ہم بھی موسیٰ کی طرح خوش ہوتے ہیں؟‏

11.‏ ایک بھائی نے اپنی ذمےداری کسی اَور کے سپرد کر کے کیسا محسوس کِیا؟‏

11 ایسے بہت سے بھائی ہیں جنہوں نے مُدتوں تک محنت اور لگن سے یہوواہ کی خدمت کی اور جوان بھائیوں کی تربیت کی۔‏ اِن میں سے ایک بھائی پیٹر تھے جنہوں نے 74 سال کے لیے کُل‌وقتی خدمت کی۔‏ اِس دوران اُنہوں نے 35 سال یورپ میں ایک بیت‌ایل میں خدمت کی جہاں وہ بڑے عرصے تک خدمتی شعبے کے نگہبان رہے۔‏ پھر یہ ذمےداری بھائی پال کو دے دی گئی جنہوں نے بھائی پیٹر ہی سے تربیت پائی تھی۔‏ اِس تبدیلی پر بھائی پیٹر کا کیا ردِعمل رہا؟‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏مجھے یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوتی ہے کہ ایسے بھائی موجود ہیں جن کو مزید ذمےداری سنبھالنے کی تربیت دی گئی ہے۔‏ مَیں یہ دیکھ کر بھی بہت خوش ہوں کہ یہ بھائی اِن ذمےداریوں کو اِتنی اچھی طرح نبھا رہے ہیں۔‏“‏

عمررسیدہ بھائیوں کی قدر کریں

12.‏ ہم رحبُعام سے کون سا سبق سیکھ سکتے ہیں؟‏

12 جب سلیمان کے بیٹے رحبُعام،‏ بادشاہ بنے تو اُنہوں نے بزرگوں سے اپنی نئی ذمےداریوں کے سلسلے میں صلح مشورہ کِیا۔‏ لیکن پھر اُنہوں نے بزرگوں کے مشوروں کو نظرانداز کِیا اور اُن جوانوں کے مشوروں پر عمل کِیا جن کے ساتھ اُنہوں نے پرورش پائی تھی۔‏ اِس کا انجام بہت بُرا نکلا۔‏ (‏2-‏تواریخ 10:‏6-‏11،‏ 19‏)‏ ہم اِس واقعے سے ایک اہم سبق سیکھ سکتے ہیں۔‏ اپنے سے بڑے اور زیادہ تجربہ‌کار بھائیوں سے مشورہ لینا اور اُن کی باتوں پر غور کرنا دانش‌مندی کی بات ہوتی ہے۔‏ جوان بھائیوں کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ اُنہیں ہر کام بالکل ویسے ہی کرنا پڑے گا جیسے یہ ماضی میں کِیا جاتا تھا۔‏ لیکن اُنہیں عمررسیدہ بھائیوں کے مشوروں پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اور اُنہیں فوراً رد نہیں کرنا چاہیے۔‏

13.‏ جوان بھائی اپنے ساتھ کام کرنے والے عمررسیدہ بھائیوں سے کیسے سیکھ سکتے ہیں؟‏

13 کبھی کبھار جوان بھائیوں کو ایسی ذمےداریاں دی جاتی ہیں جن میں اُنہیں عمررسیدہ اور اپنے سے زیادہ تجربہ‌کار بھائیوں کے کام کی نگرانی کرنی پڑتی ہے۔‏ اِس صورت میں اُنہیں اِن بھائیوں سے سیکھنے کا موقع ہاتھ سے نکلنے نہیں دینا چاہیے۔‏ جب بھائی پال کو بھائی پیٹر کی جگہ خدمتی شعبے کا نگہبان بنایا گیا تو بھائی پال نے کیا کِیا؟‏ وہ بتاتے ہیں:‏ ”‏مَیں اکثر بھائی پیٹر سے مشورہ لیتا اور اپنے شعبے میں کام کرنے والے دوسرے بھائیوں سے کہتا کہ وہ بھی ایسا ہی کریں۔‏“‏

پولُس رسول نے تیمُتھیُس کی تربیت کرنے کے لیے وقت نکا‌لا اور تیمُتھیُس نے سیکھی ہوئی باتوں پر عمل کِیا۔‏

14.‏ پولُس رسول اور تیمُتھیُس نے جس طرح سے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کِیا،‏ اِس سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

14 پولُس رسول اور تیمُتھیُس نے بہت سالوں تک مل کر خدا کی خدمت کی حالانکہ اُن کی عمروں میں کافی فرق تھا۔‏ ‏(‏فِلپّیوں 2:‏20-‏22 کو پڑھیں۔‏)‏ پولُس رسول نے کُرنتھس کی کلیسیا کو لکھا:‏ ”‏مَیں تیمُتھیُس کو آپ کے پاس بھیج رہا ہوں جو مالک کے حوالے سے میرے عزیز اور وفادار بیٹے ہیں۔‏ وہ آپ کو میرے وہ اصول یاد دِلائیں گے جن پر مَیں مسیح یسوع کے خادم کے طور پر عمل کر رہا ہوں اور جنہیں مَیں ہر جگہ اور ہر کلیسیا میں سکھا رہا ہوں۔‏“‏ (‏1-‏کُرنتھیوں 4:‏17‏)‏ اِس آیت سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ پولُس رسول اور تیمُتھیُس نے اپنی ذمےداریاں انجام دینے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کِیا اور ایک دوسرے کی مدد کی۔‏ پولُس رسول نے تیمُتھیُس کو وہ اصول سکھانے کے لیے وقت نکا‌لا جن پر وہ خود بھی عمل کر رہے تھے۔‏ اور تیمُتھیُس نے اُن باتوں پر عمل کِیا جو اُنہوں نے پولُس سے سیکھیں۔‏ پولُس رسول کو تیمُتھیُس سے بہت پیار تھا اور اُنہیں پکا یقین تھا کہ تیمُتھیُس کُرنتھس کی کلیسیا کا بہت اچھا خیال رکھیں گے۔‏ آج بھی کلیسیا کے بزرگ پولُس کی مثال پر عمل کر سکتے ہیں اور دوسرے بھائیوں کو کلیسیا کی پیشوائی کرنے کے سلسلے میں تربیت دے سکتے ہیں۔‏

اپنی ذمےداریاں اچھی طرح نبھائیں

15.‏ جب ہماری زندگی تبدیلیوں سے متاثر ہوتی ہے تو رومیوں 12:‏3-‏5 پر غور کرنا فائدہ‌مند کیوں ہوتا ہے؟‏

15 ہمارے زمانے میں یہوواہ کی تنظیم کا زمینی حصہ بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اور ترقی کر رہا ہے۔‏ لیکن ترقی کے ساتھ تبدیلیاں بھی آتی ہیں۔‏ ہو سکتا ہے کہ اِن میں سے کچھ تبدیلیوں کی وجہ سے ہماری زندگی بھی متاثر ہو۔‏ لیکن اگر ہم خاکساری سے کام لیں گے اور یہوواہ کی تنظیم کے فائدے کا سوچیں گے تو ہم اِن تبدیلیوں کو قبول کر سکیں گے۔‏ یوں ہم اِتحاد کو فروغ دیں گے۔‏ پولُس رسول نے شہر روم کے مسیحیوں کو لکھا:‏ ”‏خود کو اپنی حیثیت سے زیادہ اہم نہ سمجھیں بلکہ سمجھ‌دار بنیں کیونکہ خدا ہی ہم میں سے ہر ایک کو ایمان دیتا ہے۔‏ کیونکہ جیسے جسم ایک ہوتا ہے لیکن اعضا بہت سے ہوتے ہیں اور سارے اعضا فرق فرق کام کرتے ہیں ویسے ہی ہم بہت سارے ہیں لیکن یسوع مسیح کے ساتھ متحد ہو کر ایک جسم ہیں۔‏“‏—‏رومیوں 12:‏3-‏5‏۔‏

ہم ہر وہ کام جی جان سے کرنا چاہتے ہیں جو ہمیں یہوواہ کی طرف سے دیا جاتا ہے۔‏

16.‏ ہر مسیحی یہوواہ کی تنظیم میں امن اور اِتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے کیا کر سکتا ہے؟‏

16 چاہے ہماری صورتحال کچھ بھی ہو،‏ ہم سب خدا کی بادشاہت کی حمایت کرنا چاہتے ہیں اور ہر وہ کام جی جان سے کرنا چاہتے ہیں جو ہمیں یہوواہ کی طرف سے دیا جاتا ہے۔‏ مثال کے طور پر اگر آپ عمررسیدہ بھائی ہیں تو جوان بھائیوں کی تربیت کریں تاکہ وہ آپ کی ذمےداریاں اُٹھانا سیکھیں۔‏ اگر آپ جوان بھائی ہیں تو ذمےداریوں کو قبول کریں،‏ خاکسار ہوں اور عمررسیدہ بھائیوں کا احترام کریں۔‏ اگر آپ شادی‌شُدہ بہن ہیں تو پرِسکِلّہ کی مثال پر عمل کریں جنہوں نے بدلتی صورتحال میں بھی وفاداری سے اپنے شوہر اکوِلہ کا ساتھ دیا۔‏—‏اعمال 18:‏2‏۔‏

17.‏ یسوع مسیح نے شاگردوں کو کس کام کے لیے تربیت دی؟‏

17 جب یسوع مسیح زمین پر تھے تو اُنہوں نے دوسروں کی تربیت کرنے کے سلسلے میں بہترین مثال قائم کی۔‏ وہ جانتے تھے کہ اُن کے جانے کے بعد اُن کے شاگردوں کو خوش‌خبری سنانے کا کام جاری رکھنا ہوگا۔‏ اُنہیں یہ بھی معلوم تھا کہ اُن کے شاگرد خطاکار اور عیب‌دار ہیں۔‏ لیکن اِس کے باوجود اُنہیں پکا یقین تھا کہ شاگرد مُنادی کے کام کے حوالے سے اُن سے بھی بڑے کام انجام دیں گے۔‏ (‏یوحنا 14:‏12‏)‏ اور واقعی یسوع کی موت کے بعد شاگردوں نے ”‏خوش‌خبری .‏ .‏ .‏ کی مُنادی آسمان کے نیچے ہر جگہ کی۔‏“‏ (‏کُلسّیوں 1:‏23‏)‏ یہ صرف اُس تربیت کی بدولت ممکن ہوا جو یسوع مسیح نے اُنہیں دی تھی۔‏

18.‏ ‏(‏الف)‏ ہم کس طرح کے مستقبل کی اُمید رکھتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ آج ہمیں کون سی اہم ذمےداری سونپی گئی ہے؟‏

18 یسوع مسیح کی موت کے بعد یہوواہ نے اُنہیں زندہ کر دیا،‏ اُنہیں مزید ذمےداریاں سونپیں اور اُنہیں ”‏ہر حکومت،‏ اِختیار،‏ طاقت،‏ عہدے اور نام سے زیادہ بلند کِیا۔‏“‏ (‏اِفسیوں 1:‏19-‏21‏)‏ زندگی کا اِعتبار نہیں۔‏ ہو سکتا ہے کہ ہم ہرمجِدّون کے آنے سے پہلے مر جائیں۔‏ لیکن اگر ہم اپنی موت تک یہوواہ کے وفادار رہیں گے تو وہ ہمیں بھی زندہ کرے گا اور نئی دُنیا میں بہت سے دلکش کام سونپے گا۔‏ اور یاد رکھیں کہ ہمیں آج بھی ایک بہت اہم ذمےداری سونپی گئی ہے،‏ یعنی خوش‌خبری کی مُنادی کرنے اور شاگرد بنانے کی ذمےداری۔‏ لہٰذا چاہے ہم جوان ہوں یا عمررسیدہ،‏ آئیں،‏ ”‏مالک کی خدمت میں مصروف رہیں۔‏“‏—‏1-‏کُرنتھیوں 15:‏58‏۔‏