قارئین کے سوال
یسوع کی اِس بات کا کیا مطلب تھا: ”یہ نہ سوچیں کہ مَیں زمین پر امن لانے آیا ہوں“؟
یسوع نے لوگوں کو امن کا پیغام دیا۔ لیکن ایک موقعے پر اُنہوں نے اپنے رسولوں سے کہا: ”یہ نہ سوچیں کہ مَیں زمین پر امن لانے آیا ہوں۔ مَیں امن نہیں بلکہ تلوار لے کر آیا ہوں کیونکہ مَیں بیٹے اور باپ، بیٹی اور ماں اور بہو اور ساس کو ایک دوسرے سے جُدا کرنے آیا ہوں۔“ (متی 10:34، 35) یسوع کی اِس بات کا کیا مطلب تھا؟
یسوع یہ نہیں چاہتے تھے کہ گھر والے ایک دوسرے سے جُدا ہو جائیں۔ لیکن وہ جانتے تھے کہ اُن کی تعلیمات کی وجہ سے کچھ گھرانوں میں پھوٹ ڈل جائے گی۔ اِس لیے جو لوگ مسیح کا شاگرد بننا چاہتے ہیں اور بپتسمہ لینا چاہتے ہیں، اُنہیں یہ بات پتہ ہونی چاہیے کہ اُن کے اِس فیصلے کے کیا نتیجے نکلیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ کبھی کبھار اُن کا جیون ساتھی یا گھر والے اُن کی مخالفت کریں جس کی وجہ سے اُن کے لیے مسیح کی تعلیمات پر عمل کرنا مشکل ہو جائے۔
بائبل میں مسیحیوں سے کہا گیا ہے کہ ”جہاں تک ممکن ہو، اپنی طرف سے سب کے ساتھ امن سے رہیں۔“ (روم 12:18) لیکن یسوع کی تعلیمات کچھ گھرانوں میں ”تلوار“ کی طرح ثابت ہو سکتی ہیں۔ ایسا اُس وقت ہوتا ہے جب ایک شخص تو مسیح کی تعلیمات کو قبول کرتا ہے لیکن اُس کے گھر والے ایسا نہیں کرتے۔ ایسی صورتحال میں اُس شخص کے گھر والے ایک طرح سے اُس کے ”دُشمن“ بن جاتے ہیں۔—متی 10:36۔
اگر ایک مسیحی ایک ایسے گھرانے میں رہتا ہے تو کبھی کبھار اُسے یہ فیصلہ کرنا پڑ سکتا ہے کہ کیا وہ یہوواہ اور یسوع کو خوش کرے گا یا اپنے گھر والوں کو۔ مثال کے طور پر شاید اُس کے غیر ایمان رشتےدار اُس پر زور ڈالیں کہ وہ اُن کے مذہبی تہوار منائے۔ ایسی صورتحال میں اُسے یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کسے خوش کرے گا۔ یسوع نے کہا تھا: ”جو شخص اپنے بیٹے یا بیٹی کو مجھ سے زیادہ عزیز رکھتا ہے، وہ میرے لائق نہیں۔“ (متی 10:37) بےشک یسوع یہ نہیں کہہ رہے تھے کہ جو شخص اُن کا شاگرد بننا چاہتا ہے، اُسے اپنے ماں باپ سے کم محبت کرنی ہوگی۔ اِس کی بجائے وہ یہ سکھا رہے تھے کہ وہ یہ فیصلہ کیسے کر سکتا ہے کہ کون سی چیزیں اُس کی زندگی میں زیادہ اہم ہونی چاہئیں۔ اگر ہمارے غیر ایمان رشتےدار یا گھر والے ہمیں یہوواہ کی عبادت کرنے سے روکتے ہیں تو ہم اُن سے محبت کرنا تو نہیں چھوڑیں گے لیکن ساتھ ہی ساتھ ہم یہ بھی یاد رکھیں گے کہ ہمیں اُن سے زیادہ یہوواہ سے محبت کرنی چاہیے۔
اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ جب ہمارے گھر والے ہماری مخالفت کرتے ہیں تو ہمیں بہت دُکھ ہوتا ہے۔ لیکن یسوع کے شاگردوں کے طور پر ہمیں اُن کی یہ بات یاد رکھنی چاہیے: ”جو شخص اپنی سُولی اُٹھانے اور میری پیروی کرنے کو تیار نہیں، وہ میرے لائق نہیں۔“ (متی 10:38) دوسرے لفظوں میں کہیں تو مسیحی اپنے گھر والوں کی طرف سے مخالفت کو اُنہی تکلیفوں کا حصہ سمجھتے ہیں جو مسیح کے شاگرد خوشی سے سہتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ یہ اُمید بھی رکھتے ہیں کہ اُن کے پاک چالچلن کو دیکھ کر اُن کے غیر ایمان رشتےداروں کے دل میں بائبل کی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش پیدا ہو سکتی ہے۔—1-پطر 3:1، 2۔