سرِورق کا موضوع: اپنوں کی موت کا غم کیسے سہیں؟
غمزدہ لوگوں کو تسلی کیسے دیں؟
کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ کسی کے گھر فوتگی پر گئے ہوں اور آپ کو یہ سمجھ نہ آ رہا ہو کہ آپ اُسے تسلی کیسے دیں گے؟ اِس لیے آپ چپچاپ لوٹ آئے ہوں۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ ہم اُن لوگوں کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کر سکتے ہیں جن کا کوئی اپنا فوت ہو جاتا ہے۔
بعض صورتوں میں تو سوگوار شخص سے جا کر ملنا اور یہ کہنا ہی کافی ہوتا ہے کہ آپ کو اُس کے عزیز کی موت کا سُن کر بہت دُکھ ہوا ہے۔ کئی ملکوں کے رواج کے مطابق ایسے شخص کو گلے لگانا اِس بات کا اِظہار ہوتا ہے کہ آپ اُس کے غم میں شریک ہیں۔ اگر وہ شخص آپ سے بات کرنا چاہتا ہے تو اُس کی بات بڑے دھیان سے سنیں۔ سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ آپ گھر کے ایسے کام کرنے میں اُس کی مدد کریں جو وہ خود نہیں کر پا رہا۔ مثال کے طور پر آپ کھانا پکانے، بچوں کی دیکھبھال کرنے یا اگر وہ چاہتا ہے تو جنازے کے اِنتظامات کرنے میں اُس کی مدد کر سکتے ہیں۔ ایسا کرنے سے آپ حقیقی معنوں میں اُس کی مدد کر رہے ہوں گے۔
کچھ وقت کے بعد آپ اُسے بتا سکتے ہیں کہ اُس کا عزیز کتنی اچھی خوبیوں کا مالک تھا اور آپ نے اُس کے ساتھ کتنا اچھا وقت گزارا ہے۔ ایسی باتوں سے شاید اُس کے چہرے پر مسکراہٹ آ جائے۔ اِس سلسلے میں پام نامی خاتون کی مثال پر غور کریں جن کا شوہر چھ سال پہلے فوت ہو گیا تھا۔ پام نے کہا: ”اکثر لوگ مجھے یہ بتاتے ہیں کہ
میرے شوہر ایئن دوسروں کی بھلائی کے لیے کیا کچھ کرتے تھے۔ یہ سُن کر مجھے بہت خوشی ہوتی ہے حالانکہ مجھے یہ پتہ بھی نہیں تھا کہ وہ لوگوں کی اِتنی مدد کرتے تھے۔“ماہرین کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کا کوئی اپنا فوت ہو جاتا ہے، اُن کا شروع میں تو بڑا خیال رکھا جاتا ہے لیکن جب اُن کے دوست اور رشتےدار اپنے اپنے کاموں میں مگن ہو جاتے ہیں تو اُن کی ضروریات کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ اِس لیے اگر آپ کا کوئی دوست اِس طرح کی صورتحال سے گزر رہا ہے تو اُس کا حال چال پوچھتے رہیں۔ * جب غم کے بوجھ تلے دبے ہوئے لوگوں کا مسلسل خیال رکھا جاتا ہے تو اُنہیں احساس ہوتا ہے کہ وہ مشکل وقت میں تنہا نہیں ہیں۔
اِس سلسلے میں جاپان کی رہنے والی کاؤری کی مثال پر غور کریں۔ اُن کی ماں کو فوت ہوئے ابھی 15 مہینے ہی ہوئے تھے کہ اُن کی بڑی بہن بھی فوت ہو گئیں۔ مگر اُن کے دوستوں نے مسلسل اُن کا خیال رکھا۔ اِن میں سے ایک کا نام رِتسوکو ہے جو عمر میں کاؤری سے کافی بڑی ہیں۔ اُنہوں نے کاؤری کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ کاؤری نے بتایا: ”سچ کہوں تو مَیں اُن سے دوستی نہیں کرنا چاہتی تھی کیونکہ مَیں اپنی ماں کی جگہ کسی اَور کو نہیں دینا چاہتی تھی اور میرے خیال میں اُن کی جگہ کوئی اَور لے بھی نہیں سکتا تھا۔ لیکن رِتسوکو کے ممتا بھرے سلوک کو دیکھ کر مَیں اُن کے بہت قریب آ گئی۔ ہر ہفتے ہم تبلیغ اور عبادت کے لیے اِکٹھی جاتی تھیں۔ رِتسوکو مجھے اپنے گھر چائے پر بلاتیں، میرے لیے کھانا لے کر آتیں اور کئی بار مجھے خط اور کارڈ بھی بھیجتیں۔ اُن کی شفقت نے میرا دل جیت لیا۔“
کاؤری کی امی کو فوت ہوئے 12 سال ہو گئے ہیں۔ اب کاؤری اور اُن کا شوہر کُلوقتی طور پر تبلیغی کام کر رہے ہیں۔ کاؤری نے کہا: ”رِتسوکو آج بھی مجھ سے بڑی محبت کرتی ہیں۔ جب بھی مَیں اُن کے شہر جاتی ہوں، جہاں دراصل مَیں نے خود بھی پرورش پائی ہے تو مَیں اُن سے ضرور ملتی ہوں۔ اُن کے ساتھ وقت گزار کر مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔“
ملک قبرص کی رہنے والی یہوواہ کی ایک گواہ کو بھی ایسا ہی تجربہ ہوا۔ اُن کا نام پولی ہے۔ اُن کے شوہر کا نام سوزوس تھا اور وہ بہت ہی نیک دل اِنسان تھے۔ وہ اکثر اپنے ہمایمان لوگوں میں سے یتیموں اور بیواؤں کو اپنے گھر کھانے پر بلاتے تھے۔ (یعقوب 1:27) افسوس کی بات ہے کہ سوزوس دماغ میں رسولی کی وجہ سے 53 سال کی عمر میں ہی وفات پا گئے۔ پولی نے کہا: ”مجھے اپنے شوہر کو کھونے کا بہت غم ہے۔ اُن کے ساتھ مَیں نے اپنی زندگی کے 33 حسین سال گزارے ہیں۔“
اپنے شوہر کی وفات کے کچھ عرصے بعد پولی اپنے سب سے چھوٹے بیٹے ڈینئل کے ساتھ کینیڈا چلی گئیں۔ اُس وقت ڈینئل کی عمر 15 سال تھی۔ وہاں وہ یہوواہ کے گواہوں کی ایک کلیسیا (یعنی جماعت) میں عبادت کے لیے جانے لگے۔ پولی کہتی ہیں: ”اِس کلیسیا میں لوگ بالکل نہیں جانتے تھے کہ ہم کن مشکلوں سے گزرے ہیں۔ پھر بھی وہ ہمارے ساتھ بہت شفقت سے پیش آئے اور ہمارا بڑا خیال رکھا۔ چونکہ اُس وقت میرے بیٹے کو اپنے باپ کی بہت کمی محسوس ہو رہی تھی اِس لیے اِن لوگوں کا ساتھ کسی نعمت سے کم نہیں تھا۔ اِس کلیسیا کے کچھ ذمےدار اشخاص نے میرے بیٹے کا خیال اپنے بچوں کی طرح رکھا۔ اِن میں سے ایک تو ڈینئل کو ہمیشہ سیروتفریح اور کھیلنے کے لیے بھی بلاتا تھا۔“ آج پولی اور ڈینئل بڑی حد تک سوزوس کی موت کے صدمے سے نکل آئے ہیں۔
واقعی ہم اُن لوگوں کی مختلف طریقوں سے مدد کر سکتے ہیں جو اپنے پیاروں کی موت کی وجہ سے غمزدہ ہیں۔ خدا کے پاک کلام میں بھی ایسے لوگوں کو ایک اُمید دی گئی ہے۔ اگلے مضمون میں اِس شاندار اُمید کے بارے میں بتایا گیا ہے۔
^ پیراگراف 6 بعض لوگ اپنے کیلنڈر میں کسی شخص کے مرنے کی تاریخ پر نشان لگا لیتے ہیں۔ اِس طرح اُنہیں یاد رہتا ہے کہ اُنہوں نے اُس تاریخ پر یا اُس کے آنے سے پہلے اُس شخص کے رشتےداروں کو تسلی دینے کے لیے کچھ کرنا ہے۔