میرے والدین مجھ پر اتنی پابندیاں کیوں عائد کرتے ہیں؟
نوجوانوں کا سوال
میرے والدین مجھ پر اتنی پابندیاں کیوں عائد کرتے ہیں؟
”دوسرے بچوں کی نسبت مجھے شام کو جلدی گھر واپس پہنچنا پڑتا تھا۔ اِس بات سے مجھے چِڑ ہوتی۔“—آلن۔
”میرے والدین اِس بات پر کڑی نگرانی رکھتے ہیں کہ مَیں اپنا موبائل کب اور کیسے استعمال کرتی ہوں۔ مجھے یوں لگتا ہے جیسے میرے ساتھ بچوں جیسا سلوک کِیا جا رہا ہے۔“—ایلزابیت۔
کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ پابندیوں کے بوجھ تلے دبے جا رہے ہیں؟ کیا آپ نے کبھی گھر سے چوری چپکے نکلنے کا ارادہ کِیا ہے؟ یا پھر کیا آپ نے کبھی اپنے والدین کی نافرمانی کی اور بعد میں اس کے بارے میں اُن سے جھوٹ بولا ہے؟ اگر ایسا ہے تو شاید آپ اِس نوجوان لڑکی سے اتفاق کریں گے جو سمجھتی ہے کہ اُس کے والدین اُس پر حد سے زیادہ پابندیاں عائد کرتے ہیں۔ وہ کہتی ہے: ”کبھیکبھار میرا دم گھٹنے لگتا ہے۔“
اکثر والدین گھر میں بہت سے اصول عائد کرتے ہیں۔ شاید وہ آپ سے کہیں کہ آپ اپنا سکول کا کام کریں یا پھر گھر کے کامکاج میں اُن کا ہاتھ بٹائیں۔ یا پھر شاید آپ کے والدین آپ کو ٹیلیفون، ٹیلیویژن یا کمپیوٹر پر زیادہ وقت صرف کرنے سے منع کرتے ہیں۔ شاید کچھ ایسی بھی پابندیاں ہیں جو گھر کے باہر لاگو ہوتی ہیں مثلاً سکول میں آپ کے چالچلن اور آپ کے دوستوں کے انتخاب پر۔
کئی نوجوان گھر میں عائد پابندیوں اور اصولوں کی خلافورزی کرتے ہیں۔ ایک جائزے میں حصہ لینے والے تقریباً دو تہائی نوجوانوں نے کہا کہ اُن کی نافرمانی کی وجہ سے والدین اُن کو سزا دے چکے ہیں۔
بہتیرے نوجوان اِس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اگر اُن کے والدین اُن پر کوئی اصول یا پابندی عائد نہ کریں تو گھر میں ہلچل مچی رہے۔ گھرانے کے سکون کے لئے اصولوں اور پابندیوں کی ضرورت ہے۔ لیکن نوجوان ان سے اتنا چڑتے کیوں ہیں؟ اگر آپ کو ایسا لگتا ہے کہ آپ پر حد سے زیادہ پابندیاں عائد ہیں تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟
مَیں بچہ نہیں رہا!
ایملی نامی ایک نوجوان لڑکی کہتی ہے: ”مَیں اپنے والدین کو کیسے سمجھاؤں کہ مَیں بچی نہیں رہی اور یہ کہ اُنہیں میری روکٹوک نہیں کرنی چاہئے!“ شاید آپ بھی ایملی کی طرح اصولوں اور پابندیوں سے تنگ آ چکے ہیں کیونکہ آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے ساتھ بچوں جیسا سلوک کِیا جا رہا ہے۔ لیکن شاید آپ کے والدین ایسا نہیں محسوس کرتے۔ اُن کے خیال میں یہ پابندیاں آپ کے تحفظ کے لئے ہیں۔ شاید وہ یہ بھی سوچیں کہ پابندیوں کے ذریعے آپ بالغ ہونے پر اپنی ذمہداریوں کو بہتر طور پر نبھا سکیں گے۔
شاید آپ کو ایک حد تک آزادی دی جا رہی ہے لیکن آپ کو ایسا لگتا ہے کہ آپ کی عمر کے لحاظ سے آپ پر حد سے زیادہ پابندیاں عائد ہیں۔ شاید آپ کو ایسا بھی لگے کہ جب آپ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی عمر کے تھے تو آپ کے ساتھ زیادہ سختی کی جاتی تھی۔ مارسی نامی ایک لڑکی کہتی ہے: ”مَیں سترہ سال
کی ہوں۔ جب مَیں کہیں باہر جاتی ہوں تو میرے والدین پہلے ہی سے طے کرتے ہیں کہ مجھے کس وقت تک گھر واپس پہنچنا ہوگا۔ جب مَیں کوئی غلط کام کرتی ہوں تو مجھے کئی دن تک باہر جانے سے منع کِیا جاتا ہے۔ جب میرا بڑا بھائی میری عمر کا تھا تو اُس پر ایسی پابندیاں عائد نہیں تھیں۔“ میتھیو جو کہ اب ۲۲ سال کا ہے، کہتا ہے: ”جب مَیں نوجوان تھا تو میری چھوٹی بہن اور پھوپھیزاد بہنوں کو اُس وقت بھی سزا نہیں دی جاتی تھی جب یہ بات بالکل واضح تھی کہ اُنہوں نے غلط کام کِیا ہے۔ لیکن جب مَیں غلط کام کرتا تھا تو میرے ساتھ سختی برتی جاتی تھی۔“پابندیوں کی اہمیت
کیا آپ اپنے والدین کے اختیار سے آزاد ہونا چاہتے ہیں؟ کیا واقعی آپ کی زندگی پابندیوں کے بغیر بہتر ہوگی؟ شاید آپ ایسے نوجوانوں کو جانتے ہیں جو شام کو جس وقت چاہیں گھر واپس آ سکتے ہیں۔ وہ جو چاہے پہن سکتے ہیں اور اپنے دوستوں کے ساتھ جب چاہیں، جہاں چاہیں جا سکتے ہیں۔ شاید ایسے بچوں کے والدین اتنے مصروف ہیں کہ اُن کو ان کی پرواہ ہی نہیں۔ لیکن بچوں کی تربیت کے لئے اچھا نہیں کہ اُن کو ہر وقت منمانی کرنے کی اجازت دی جائے۔ (امثال ۲۹:۱۵) دُنیابھر میں خاندان میں آپس کی محبت کی کمی ظاہر ہو رہی ہے۔ یہ اِس لئے ہے کیونکہ بہتیرے لوگ جن کی پرورش پابندیوں کے بغیر کی گئی ہے، خودغرض بن جاتے ہیں۔—۲-تیمتھیس ۳:۱-۵۔
شاید ایک دِن ایسا آئے کہ آپ اپنے والدین کی عائد کی گئی پابندیوں کی اہمیت کو سمجھیں۔ کئی ایسی عورتوں کا جائزہ لیا گیا جن پر بچپن میں بہت کم پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔ اِن میں سے کسی کو اِس بات پر خوشی نہیں ہے کہ اُن کے والدین نے اُن کی تربیت نہیں کی تھی۔ البتہ اِن عورتوں کو یہ احساس ضرور ہے کہ اِن کے والدین کو اِن کی فکر نہ تھی یا پھر وہ اُن کی ٹھیک طرح سے تربیت کرنے کے قابل نہ تھے۔
لہٰذا جن نوجوانوں کو اپنی منمانی کرنے کی اجازت ہے اُن سے حسد نہ کیجئے۔ اس کی بجائے اپنے والدین کی عائد کی ہوئی پابندیوں کو اُن کے پیار کا اظہار سمجھئے۔ پابندیاں عائد کرنے سے آپ کے والدین یہوواہ خدا کی نقل کر رہے ہیں جس نے اپنے بندوں سے کہا تھا: ”مَیں تجھے تعلیم دوں گا اور جس راہ پر تجھے چلنا ہوگا تجھے بتاؤں گا۔ مَیں تجھے صلاح دوں گا۔ میری نظر تجھ پر ہوگی۔“—زبور ۳۲:۸۔
اگر آپ کے گھر میں کئی ایسے اصول ہیں جن کے پابند رہنا آپ کے لئے مشکل ثابت ہو رہا ہے تو ان نکتوں پر غور کیجئے۔
کُھل کر بات کریں
چاہے آپ پابندیوں کی وجہ سے پریشان ہیں یا آپ کو زیادہ آزادی چاہئے، آپ کو اپنے والدین سے اس کے بارے میں بات کرنی چاہئے۔ شاید آپ کہیں
کہ آپ نے اپنے والدین سے بات کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اِس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اگر آپ ایسا محسوس کرتے ہیں تو ذرا خود سے پوچھیں: ”مَیں نے کس لہجے میں اُن سے بات کی تھی؟“ اپنے والدین سے اپنے احساسات کے بارے میں بات کرنے کے دو فائدے ہیں۔ پہلا فائدہ یہ ہے کہ آپ جس بات کی درخواست کرتے ہیں شاید آپ کے والدین آپ کو اُس کی اجازت دے دیں۔ اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اگر آپ کو ایک بات کی اجازت نہ دی جائے تو آپ بہتر طور پر اس کی وجہ سمجھ پائیں گے۔ اگر آپ واقعی چاہتے ہیں کہ آپ کو زیادہ ذمہداری دی جائے تو آپ کو چاہئے کہ آپ ایک پُختہ شخص کی طرح باتچیت کرنا سیکھیں۔▪ اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں۔ خدا کے کلام میں بیان کِیا گیا ہے: ”احمق اپنا قہر اُگل دیتا ہے لیکن دانا اُس کو روکتا اور پی جاتا ہے۔“ (امثال ۲۹:۱۱) اپنے والدین سے باتچیت کرتے وقت اگر آپ ہر بات پر شکایت کریں گے تو شاید وہ آپ کی تنبیہ کریں۔ اِس لئے مُنہ پھلانے، روٹھ جانے اور غصہ کرنے سے پرہیز کریں۔ اگر کسی پابندی پر آپ کا ردِعمل دروازے کو پٹاخ کرکے بند کر دینا یا پھر پاؤں پٹخنا ہوگا تو شاید آپ کے والدین آپ پر اَور زیادہ پابندیاں عائد کر دیں۔
▪ اپنے والدین کے نظریے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ ٹریسی جو اپنی والدہ کے ساتھ رہتی ہے، وہ کہتی ہے: ”مَیں اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہوں کہ میری ماں پابندیاں عائد کرنے کے ذریعے میرے لئے کیا حاصل کرنا چاہتی ہیں؟ دراصل وہ مجھے ایک بہتر انسان بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔“ (امثال ۳:۱، ۲) جب آپ اپنے والدین کے نظریے کو اچھی طرح سے سمجھ پائیں گے تو آپ کو اپنے خیالات کا اظہار کرنا آسان لگے گا۔ مثال کے طور پر اگر آپ کے والدین آپ کو ایک پارٹی پر جانے کی اجازت دینے سے ہچکچا رہے ہیں تو بحث کرنے کی بجائے کیوں نہ آپ اُن سے یہ کہیں: ”اگر ایک پُختہ اور قابلِبھروسہ شخص میرے ساتھ جائے تو کیا مَیں جا سکتا ہوں؟“ اپنے والدین کا نظریہ جاننے سے آپ ایک مناسب تجویز پیش کر سکیں گے۔ لیکن اس بات کی توقع نہ کریں کہ آپ کے والدین ہمیشہ آپ کی بات ماننے کو تیار ہوں گے۔
▪ اپنے والدین کا بھروسہ حاصل کریں۔ اگر آپ اپنے والدین کا بھروسہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو پہلے آپ کو اِس کے لائق بننا ہوگا۔ اگر آپ کے والدین آپ کو کسی بات میں آزادی دیتے ہیں اور آپ اس کا غلط استعمال کرتے ہیں تو آپ اُن کا بھروسہ کھو بیٹھیں گے۔ اِس لئے پہلے آپ کو اپنے اعمال سے ثابت کرنا ہوگا کہ آپ پر بھروسہ کِیا جا سکتا ہے۔
▪ کُھلی چھٹی حاصل کرنے کی توقع نہ کریں۔ آپ کے والدین آپ کی تربیت کرنے کی ذمہداری رکھتے ہیں۔ اِس لئے خدا کے کلام میں ”باپ کے فرمان“ اور ”ماں کی تعلیم“ کا ذکر ہے۔ (امثال ۶:۲۰) لیکن آپ کو ایسے محسوس نہیں کرنا چاہئے کہ آپ کے گھر میں جو اصول عائد ہیں ان سے آپ کی زندگی برباد ہو رہی ہے۔ یہوواہ خدا وعدہ کرتا ہے کہ اگر آپ اپنے والدین کے اختیار کے تابع رہیں گے تو آپ کا ’بھلا ہوگا۔‘—افسیوں ۶:۱-۳۔
”نوجوانوں کے سوال“ کے سلسلے میں مزید مضامین ویب سائٹ www.watchtower.org/ype پر مل سکتے ہیں
ذرا سوچیں
▪ گھر کے کن اصولوں پر عمل کرنا آپ کو خاص طور پر مشکل لگتا ہے؟
▪ اِس مضمون میں کون سے ایسے نکات ہیں جن کی مدد سے آپ اپنے والدین کی پابندیوں کے تابع رہ سکتے ہیں؟
▪ آپ اپنے والدین کا بھروسہ کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟
[صفحہ ۲۱ پر بکس/تصویریں]
سزا پاتے وقت
اپنے والدین کی نافرمانی کرتے ہوئے کیا آپ شام کو دیر سے گھر پہنچے ہیں؟ یا پھر کیا آپ نے ٹیلیفون پر دیر تک بات کی حالانکہ آپ کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں؟ یا پھر کیا آپ نے گھریلو کامکاج میں کوتاہی کی ہے؟ اب آپ کے والدین آپ کو اِس وجہ سے جوابدہ ٹھہرا رہے ہیں۔ آپ اِس صورتحال میں کیا کر سکتے ہیں؟
▪ سچ بولیں۔ جھوٹ بولنے کی بجائے اپنے والدین کے سوالوں پر سچ سچ جواب دیں۔ (امثال ۲۸:۱۳) اگر آپ اُنہیں گڑھی ہوئی کہانیاں سنانا شروع کر دیں گے تو وہ آیندہ آپ پر بھروسہ کیسے کریں گے؟ اس بات کا دعویٰ نہ کریں کہ آپ کی غلطی اتنی سنگین تو نہیں تھی۔ اور یاد رکھیں کہ ”نرم جواب قہر کو دُور کر دیتا ہے۔“—امثال ۱۵:۱۔
▪ معافی مانگیں۔ یاد رکھیں کہ آپ نے اپنے والدین کو پریشان کِیا ہے۔ اس بات کی معافی مانگیں۔ اِس سے شاید آپ کی سزا میں کمی بھی آ جائے۔ (۱-سموئیل ۲۵:۲۴) لیکن آپ کو محض دکھاوے کے لئے نہیں بلکہ دل سے تائب ہونا چاہئے۔
▪ نتائج بھگتنے کیلئے تیار ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ اپنی غلطی کی سزا سُن کر اپنے والدین سے جھگڑنا شروع کر دیں، خاص طور پر اگر یہ سزا آپکو بہت سخت لگے۔ (امثال ۲۰:۳) لیکن اپنی غلطیوں کی ذمہداری لینا بھی پُختہ ہونے کی علامت ہے۔ (گلتیوں ۶:۷) ایسی صورتحال میں سب سے بہتر بات یہی ہوگی کہ آپ محنت کرکے پھر سے اپنے والدین کا بھروسہ حاصل کریں۔
[صفحہ ۲۲ پر تصویر]
اپنے والدین کے نظریے کو سمجھنے کی کوشش کریں