گدھوں کے بغیر بھی کوئی زندگی ہے!
گدھوں کے بغیر بھی کوئی زندگی ہے!
ایتھوپیا سے جاگو! کا نامہنگار
ایتھوپیا کا دارالحکومت ادیس ابابا دُنیا کا ۱۶ واں گنجانآباد شہر ہے۔ عرصۂدراز سے یہاں گدھا آمدورفت کا ایک اہم ذریعہ رہا ہے۔ بیشتر ڈرائیوروں نے سڑک پر ان کے ساتھ چلنا سیکھ لیا ہے۔ وہ اس بات سے باخبر ہیں کہ گدھوں کو عام طور پر اپنا راستہ اچھی طرح یاد رہتا ہے۔ گدھوں کو ٹریفک کے رش سے ڈر نہیں لگتا۔ وہ اپنے بوجھ کو بڑی احتیاط سے لیکر چلتے اور پیچھے مڑکر نہیں دیکھتے ہیں۔ اگر گدھے کوئلہ، گوبر یا ایسا کوئی وزن لیکر چل رہے ہوں تو بہتر ہے آپ ان کے راستے میں نہ آئیں۔
ایتھوپیا میں ۵۰ لاکھ کے لگبھگ گدھے پائے جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے ۱۲ لوگوں کے حصے میں ایک گدھا آتا ہے۔ ایتھوپیا کے لاکھوں باشندے کوہستانی علاقوں میں دُور دُور رہتے ہیں۔ ان علاقوں کے درمیان بیشمار چھوٹی چھوٹی ندیاں ہیں۔ ان مقامات پر پلوں کی تعمیر کرنا تو دُور کی بات کچی سڑکیں بنانا بھی مشکل ہے۔ اس لئے کہ ایسا کرنے کے لئے کسی بھی مُلک کو بہت زیادہ وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ پس آمدورفت کے لئے مضبوط قدم والا اور وفادار جانور گدھا بہترین ذریعہ ہے۔
گدھا ایتھوپیا کے ہر موسم کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ وہ خشک اور گرم نشیبی علاقوں اور پہاڑی خطوں کا موسم برداشت کر سکتا ہے۔ گدھا ڈھلوانوں، تنگ گلیوں، دریا کے پتھریلے کناروں، کیچڑ اور دیگر ناہموار راستوں پر بڑی آسانی سے چل سکتا ہے۔ یہ وہاں بھی جا سکتا ہے جہاں گھوڑا یا اُونٹ نہیں جا سکتے۔ گدھا لاکھوں لوگوں تک سامان پہنچانے کا اہم ذریعہ بھی ہے۔ خاصکر ایسے شہروں میں جہاں زیادہتر گھروں تک کسی گاڑی کے ذریعے جانا مشکل ہے۔
گدھے تنگ گلیوں سے بھی بڑی آسانی سے گزر جاتے ہیں اور باڑ والے راستوں میں بھی اپنے لئے راستہ بنا لیتے ہیں۔ اُنہیں مہنگے ٹائروں کی ضرورت نہیں پڑتی اور اُنہیں شاذونادر ہی پھسلنی جگہوں میں کوئی مسئلہ ہوتا ہے۔ وہ ہر طرح کا اور ہر سائز کا وزن اُٹھاتے ہیں اور کہیں بھی گھر تک سامان پہنچا سکتے ہیں۔ گدھے ٹریفک جام میں بھی بڑی آسانی سے اپنا راستہ بنا لیتے ہیں جبکہ گاڑیاں چلانے والے ڈرائیور لالپیلے ہوکر ہارن پر ہارن بجاتے ہیں۔ اگر کوئی گدھا ونوے سٹرک سے غلط طرف بھی آ جاتا ہے تو کوئی پولیس افسر اُسے جُرمانہ ادا کرنے کے لئے نہیں کہے گا۔ اگرچہ گاڑیوں کی پارکنگ ایک مسئلہ ہے توبھی
گدھوں کی پارکنگ کوئی مسئلہ نہیں۔ ایک گدھے کو تقریباً ۵۰ ڈالر (تقریباً ۰۰۰،۳ روپے) میں بیچا جا سکتا ہے۔ لیکن جب آپ گاڑیوں کی قیمتوں پر غور کرتے ہیں تو گدھوں اور گاڑیوں کا کوئی مقابلہ نہیں!دارالحکومت میں گدھے
ہزاروں کی تعداد میں گدھے صبح سویرے ادیس ابابا کی طرف ۲۵ کلومیٹر (۱۵ میل) کا سفر کرنے کے لئے روانہ ہوتے ہیں جس کی آبادی تین لاکھ کے قریب ہے۔ بدھ اور ہفتے کا دن خاص طور پر مصروف ہوتا ہے کیونکہ یہ ہفتہوار خریدوفروخت کے دن ہوتے ہیں۔ گدھوں کو ادیس ابابا تک پہنچنے میں تین گھنٹے سے زیادہ وقت لگتا ہے اور وہ یہ سفر پَو پھٹنے سے پہلے شروع کرتے ہیں۔ بعضاوقات ان کے مالک ان کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں لیکن زیادہتر وہ انہیں دوڑاتے ہوئے ان کے پیچھے بھاگتے ہیں۔
گدھے جو وزن اُٹھاتے ہیں اس میں گندم کی بوریاں، سبزیاں، لکڑی، سیمنٹ کے بیگ، بوتلوں کے ڈبے اور کوئلہ شامل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، وہ لوہے کے ڈرم بھی اُٹھاتے ہیں جن میں کھانا پکانے کا تیل ہوتا ہے۔ بعض گدھے ۹۰ کلو (۲۰۰ پاؤنڈ) یا اس سے زیادہ وزن اُٹھاتے ہیں۔ بھاری وزن جیسےکہ بانس یا سفیدے کے لمبے ڈنڈے ان کے ساتھ باندھ دئے جاتے ہیں جنہیں وہ سڑک پر کھینچتے ہوئے چلتے ہیں۔ شاید سب سے انوکھا منظر وہ ہوتا ہے جب گدھوں پر بھوسا رکھ دیا جاتا ہے جس کے نیچے وہ تقریباً چھپ جاتے ہیں۔
گدھے وزن اُٹھاکر صبح بازار جاتے ہوئے دُلکی چال چلتے یعنی تیزرفتاری سے دوڑتے ہیں۔ جب ان کا وزن اُتر جاتا ہے تو یہ گھر کی راہ لیتے وقت سُست رفتار ہو جاتے ہیں۔ وہ سڑک کی اطراف میں گھاس کھانے کے لئے مُنہ بھی مارنے لگتے ہیں۔ جب اُنہیں بازار میں نہیں لیجایا جاتا تو انہیں پانی بھرنے اور ایندھن کے لئے لکڑی لانے کے روزمرّہ کے فرائض انجام دینے کے لئے استعمال کِیا جاتا ہے۔ بعضاوقات انہیں کرائے پر بھی دیا جاتا ہے۔ بعض گدھے صرف ”نقلوحمل“ کے کام کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں جس میں گدھوں کے ذریعے سامان کی ترسیل کی جاتی ہے۔ بعض علاقوں میں گدھوں کے ساتھ گاڑی جوڑ دی جاتی ہے جسے ایک یا دو گدھے کھینچتے ہیں۔
قابلِقدر جانور
گدھے اپنی خوراک خود ہی تلاش کر لیتے اور کچھ بھی کھا لیتے ہیں اس لئے انہیں اتنی توجہ دینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ جب ان کے ساتھ اچھا سلوک کِیا جاتا ہے تو انہیں اپنے مالک کے ساتھ اُنسیب ہو جاتی ہے۔ گدھے گھوڑوں سے بھی زیادہ ذہین ہوتے ہیں۔ انہیں راستے بڑی اچھی طرح یاد رہتے ہیں۔ اگر ان کے ساتھ کوئی نہ بھی ہو پھر بھی یہ ۸ کلومیٹر [پانچ میل] کی دُوری سے پانی لا سکتے ہیں۔ صرف ایک طرف پانی بھرکر ان کی پیٹھ پر لادنے اور دوسری طرف اُتارنے والا ہونا چاہئے۔ ان کے ساتھ گھنٹیاں بھی باندھ دی جاتی ہیں تاکہ جن گھروں میں گدھوں کو بھیجا جاتا ہے وہ ان کی آواز سُن کر اپنا سامان وصول کر لیں۔
گدھے محنتی ہوتے ہیں لیکن بوجھ کے وزن اور اپنے آرام کے بارے میں اپنی ضد کے بڑے پکے ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں یا جب وزن آڑا ٹیڑھا رکھنے کے باعث انہیں درد ہوتا ہے تو یہ بیٹھ جاتے ہیں۔ ایسے وقت میں ان کے بارے میں غلط رائے قائم کر لی جاتی اور انہیں بُرابھلا کہا اور ماراپیٹا جاتا ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ آپ بائبل میں پڑھ سکتے ہیں۔—گنتی ۲۲:۲۰-۳۱۔
گدھوں کا خیال رکھنے اور اُن کی دیکھبھال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اُس وقت صورتحال بڑی دردناک ہوتی ہے جب ان پر لادا گیا وزن صحیح طریقے سے نہیں رکھا جاتا۔ اس سے ندی نالے میں گر کر ان کی ٹانگیں ٹوٹ سکتی ہیں۔ زخم، چیچڑی، پوکھا (جانوروں کے پاؤں میں لگنے والا مرض) نمونیا اور دیگر مسائل بوجھ اُٹھانے والے اس جانور کو کمزور بنا سکتے ہیں۔ ان مسائل کے پیشِنظر ادیس ابابا کے نزدیک ڈربی زائٹ میں گدھوں کا ایک جدید ہسپتال کھولا گیا ہے۔ اس میں کمپیوٹر لگائے گئے ہیں۔ اس میں علاج کے لئے کمرے اور گدھوں کی سرجری کے لئے آپریشن تھیئٹر بھی بنائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ، اس میں علاج کی سہولیات سے لیس گشتی گاڑیاں بھی موجود ہیں۔ اس کے نتیجے میں سن ۲۰۰۲ تک تقریباً ۰۰۰،۴۰ گدھوں کا مختلف طریقوں سے علاج کِیا گیا ہے۔
آبائی بزرگ ابرہام نے موریاہ کے پہاڑ کی طرف جاتے وقت اپنے گدھے کے ساتھ پہاڑی سلسلہ پار کِیا تھا۔ (پیدایش ۲۲:۳) اسرائیل کی طویل تاریخ میں گدھا ان کی روزمرّہ زندگی کا حصہ تھا۔ جب یسوع یروشلیم میں فاتحانہ انداز سے داخل ہوا تو وہ گدھے پر سوار تھا۔—متی ۲۱:۱-۹۔
ایتھوپیا میں گدھوں کی تاریخ بہت پُرانی ہے مگر پھربھی لوگوں کی زندگیوں سے اس کی اہمیت ختم نہیں ہوئی۔ اگرچہ ٹرکوں اور کاروں کے ماڈل بدلتے رہتے ہیں توبھی گدھے کا ماڈل نہیں بدلا۔ گدھے واقعی قابلِقدر ہیں!