سرِورق کا موضوع
حقیقی خوشی کا راز
”مَیں تب خوش ہوں گی جب میری شادی ہوگی اور میرے بچے ہوں گے۔“
”مجھے تب خوشی ہوگی جب میرا اپنا گھر ہوگا۔“
”مَیں تب خوش ہوں گا جب مجھے اچھی نوکری ملے گی۔“
”مجھے تب خوشی ملے گی جب . . . “
کیا آپ نے بھی کبھی ایسی بات کہی ہے؟ جب آپ کی کوئی خواہش پوری ہوئی تو کیا آپ کی خوشی قائم رہی یا رفتہ رفتہ کم ہونے لگی؟ یہ سچ ہے کہ جب ہم وہ چیز پا لیتے ہیں جس کی ہمیں آرزو ہوتی ہے تو ہمیں خوشی ملتی ہے۔ لیکن اکثر یہ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتی۔ جس طرح تندرستی صرف اچھی خوراک سے ہی حاصل نہیں ہوتی بلکہ اِس کے لیے اَور بھی کچھ چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے اُسی طرح دائمی خوشی بھی صرف خواہشوں کی تکمیل سے یا چیزیں جمع کرنے سے نہیں ملتی۔ اِسے پانے کے لیے کچھ اَور اہم قدم اُٹھانے کی ضرورت ہے۔
ہر اِنسان دوسرے اِنسان سے فرق ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ جس بات سے ہمیں خوشی ملتی ہے، اُس سے دوسروں کو بھی خوشی ملے۔ اِس کے علاوہ عمر کے ساتھ ساتھ ہماری خواہشیں اور شوق بھی بدل جاتے ہیں۔ لیکن کچھ ایسے اصول ہیں جن پر عمل کرنے سے ہماری خوشی ہر صورت میں قائم رہتی ہے، مثلاً ہمارے پاس جو ہے اُسی پر قناعت کرنا، دوسروں سے حسد نہ کرنا، دوسرے کے لیے محبت ظاہر کرنا اور مشکلات کے باوجود ہمت نہ ہارنا۔ آئیں، باری باری اِن اصولوں پر غور کریں۔
1. جو ہے اُسی پر قناعت کریں
قدیم زمانے کے دانشور بادشاہ سلیمان نے اِنسانی فطرت کا گہرا مطالعہ کِیا۔ اُنہوں نے کہا کہ دولت ”پناہ دیتی ہے۔“ لیکن اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ ”جسے پیسے پیارے ہوں وہ کبھی مطمئن نہیں ہوگا، خواہ اُس کے پاس کتنے ہی پیسے کیوں نہ ہوں۔ جو زردوست ہو وہ کبھی آسودہ نہیں ہوگا، خواہ اُس کے پاس کتنی ہی دولت کیوں نہ ہو۔ یہ بھی باطل ہی ہے۔“ (واعظ 5:10؛ 7:12، اُردو جیو ورشن) بادشاہ سلیمان کون سا اصول سکھانا چاہتے تھے؟ زندگی گزارنے کے لیے پیسہ ضروری تو ہے لیکن ہمیں لالچ سے بچنا چاہیے کیونکہ لالچی شخص کی نیت کبھی نہیں بھرتی۔ سلیمان بادشاہ نے خود آزما کر دیکھا کہ آیا دولت اور آسائشوں سے حقیقی خوشی ملتی ہے یا نہیں۔ اُنہوں نے لکھا کہ ”سب کچھ جو میری آنکھیں چاہتی تھیں مَیں نے“ خود کو اُن سے باز نہ رکھا۔ اور ”مَیں نے اپنے دل کو کسی طرح کی خوشی سے نہ روکا۔“—واعظ 1:13؛ 2:10۔
سلیمان نے بہت زیادہ دولت اِکٹھی کی، عالیشان گھر، خوبصورت باغ باغیچے اور تالاب بنوائے۔ اُنہوں نے بےشمار نوکر اور نوکرانیاں رکھیں۔ اُنہوں نے جو چاہا، وہ پا لیا۔ وہ کس نتیجے پر پہنچے؟ اُنہوں نے کہا: ”دُنیا میں کچھ فائدہ نہیں“ اور ”مَیں نے . . . دیکھا کہ سب بطلان [یعنی بےمعنی]“ ہے۔ (واعظ 2:11، 17، 18) اُنہوں نے جو کچھ اِکٹھا کِیا، اُس سے اُنہیں خوشی تو ملی مگر وہ زیادہ دیر تک قائم نہ رہی۔ اُن کا تو زندگی سے جی ہی اُٹھ گیا۔ اُنہوں نے سیکھ لیا کہ عیشوعشرت کرنے والے لوگوں کی زندگی کھوکھلی اور بےمقصد ہوتی ہے۔ *
کیا جدید زمانے کے عالم، بادشاہ سلیمان کے مشاہدے سے متفق ہیں؟ خوشی کو فروغ دینے والے عناصر پر بات کرنے والی ایک کتاب میں لکھا ہے: ”جب اِنسان کی بنیادی ضروریات پوری ہو جاتی ہیں تو مزید پیسے کمانے سے اُس کی خوشی میں کچھ خاص اِضافہ نہیں ہوتا۔“ دراصل تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ جب اِنسان بہت زیادہ مالودولت اِکٹھی کرتا ہے، خاص طور پر جب وہ اِس کے لیے اپنے اخلاقی اور روحانی معیاروں کو داؤ پر لگا دیتا ہے تو اُس کی خوشی بڑھنے کی بجائے ماند پڑ سکتی ہے۔
پاک کلام کا اصول: ”زر کی دوستی سے خالی رہو اور جو تمہارے پاس ہے اُسی پر قناعت کرو۔“—عبرانیوں 13:5۔
2. دوسروں سے حسد نہ کریں
ایک لغت حسد کی تعریف یوں کرتی ہے: ”کسی شخص کی برتری یا کامیابی پر تلملاہٹ یا جلن۔“ ایک حاسد شخص چاہتا ہے کہ دوسروں کے اعزاز اور خوشیاں اُسے مل جائیں۔ جس طرح ایک خطرناک بیماری زندگی چھین لیتی ہے اُسی طرح حسد اِنسان کی خوشی چھین لیتا ہے۔ حسد کسی اِنسان کے دل میں جڑ کیسے پکڑ سکتا ہے؟ ہم یہ کیسے جان سکتے ہیں کہ ہمارے اندر حسد پَل رہا ہے؟ اور ہم اِس پر کیسے غالب آ سکتے ہیں؟
سماجی نفسیات کے بارے میں ایک اِنسائیکلوپیڈیا میں بتایا گیا ہے کہ لوگ اکثر اُن سے حسد کرتے ہیں جو اُن کے ہم پلا، ہمپیشہ یا ہمعمر ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک سیلزمین کسی مشہور اداکار سے تو حسد نہیں کرے گا لیکن شاید وہ اُس سیلزمین سے حسد کرے جو اُس سے زیادہ کامیاب ہے۔
اِس کی ایک مثال پر غور کریں۔ پُرانے زمانے کے ملک فارس میں کچھ سرکاری اہلکار تھے جن میں سے ایک کا نام دانیایل تھا۔ دانیایل بہت ہی دانشمند اِنسان تھے اور اِسی وجہ سے باقی اہلکار اُن سے جلتے تھے۔ دانیایل ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے۔ اِس لیے اُنہوں نے دانیایل کو مروانے کی سازش کی۔ لیکن اُن کی سازش ناکام ہو گئی۔ (دانیایل 6:1-24) جس اِنسائیکلوپیڈیا کا پہلے ذکر کِیا گیا ہے، اُس میں یہ بھی لکھا ہے: ”حسد دوسروں کو نقصان پہنچانے پر اُکساتا ہے۔ اِسی لیے بہت سے گھناؤنے تاریخی واقعات کو حسد سے منسلک کِیا گیا ہے۔“ *
اُنہیںجو شخص حسد کے قبضے میں آجاتا ہے، وہ اُن نعمتوں سے لطف نہیں اُٹھا پاتا جو اُس کے پاس ہوتی ہیں۔
ہم یہ کیسے جان سکتے ہیں کہ ہمارے اندر حسد پَل رہا ہے؟ خود سے پوچھیں: ”جب میرے ہمپیشہ یا ہمعمر کو کوئی کامیابی ملتی ہے تو کیا مَیں خوش ہوتا ہوں یا دُکھی؟ جب میرا بھائی یا بہن، ذہین ہمجماعت، یا ساتھی ملازم کسی کام میں ناکام ہوتا ہے تو کیا مجھے دُکھ ہوتا ہے یا خوشی؟“ اگر آپ کو دوسروں کی کامیابی پر دُکھ اور ناکامی پر خوشی ہوتی ہے تو آپ کے اندر حسد پَل رہا ہے۔ (پیدایش 26:12-14) سماجی نفسیات کے بارے میں اِنسائیکلوپیڈیا میں یہ بھی کہا گیا ہے: ”جو شخص حسد کے قبضے میں آجاتا ہے وہ نہ تو اُن نعمتوں سے لطف اُٹھاتا ہے جو اُس کے پاس ہوتی ہیں اور نہ ہی اُن کی قدر کرتا ہے . . . حسد اُس کی خوشی کو چاٹ جاتا ہے۔“
حسد پر غالب آنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اندر خاکساری اور عاجزی پیدا کریں۔ ایسا کرنے سے ہم دوسروں کی صلاحیتوں اور خوبیوں سے جلنے کی بجائے اُنہیں سراہیں گے۔ پاک صحیفوں میں نصیحت کی گئی ہے کہ ”تفرقے اور بےجا فخر کے باعث کچھ نہ کرو بلکہ فروتنی سے ایک دوسرے کو اپنے سے بہتر سمجھے۔“—فلپیوں 2:3۔
پاک کلام کا اصول: ”ہم بےجا فخر کرکے نہ ایک دوسرے کو چڑائیں نہ ایک دوسرے سے جلیں۔“—گلتیوں 5:26۔
3. دوسروں کے لیے محبت ظاہر کریں
سماجی نفسیات کے بارے میں ایک کتاب میں لکھا ہے: ”لوگوں کو اِتنی خوشی اور تسکین اچھی نوکری، آمدنی اور صحت سے نہیں ملتی جتنی دوسروں کے ساتھ اچھے تعلقات سے ملتی ہے۔“ سادہ سی بات ہے کہ حقیقی خوشی تب ملتی ہے جب ہم دوسروں سے پیار کریں اور دوسرے ہم سے پیار کریں۔ پاک صحیفوں میں بتایا گیا ہے کہ اگر ہم دوسروں سے محبت نہ رکھیں تو ہم کچھ بھی نہیں۔—1-کرنتھیوں 13:2۔
دوسروں کے لیے محبت ظاہر کرنے کی گنجائش ہمیشہ ہی رہتی ہے۔ اِس سلسلے میں ایک لڑکی کی مثال پر غور کریں جس کا نام ونیسا ہے۔ اُس کا باپ ایک شرابی اور جھگڑالو شخص تھا۔ وہ 14 سال کی عمر میں گھر سے بھاگ گئی۔ تب سے حکومت اُس کی دیکھبھال کی ذمےداری مختلف لوگوں کو دیتی رہی۔ وہ ایک دارالامان میں رہی جہاں کا ماحول بہت ہی خراب تھا۔ وہاں اُس نے گڑگڑا کر خدا سے مدد مانگی۔ شاید یہ اُس کی دُعاؤں کا جواب ہی تھا کہ اُسے ایک ایسے خاندان کے ساتھ رہنے کے لیے بھیج دیا گیا جو پاک صحیفوں میں درج اِس اصول پر عمل کرتا تھا کہ ”محبت صابر ہے اور مہربان“ ہے۔ (1-کرنتھیوں 13:4) اِس خاندان کے افراد نے اُس پر اچھا اثر ڈالا۔ اِس کے علاوہ اُس نے خود بھی خدا کے کلام سے بہت سی اچھی باتیں سیکھیں۔ اِس سے اُس کی ذہنی اور جذباتی حالت سنبھلنے لگی۔ ونیسا نے بتایا: ”پہلے سکول میں میرے نمبر ہمیشہ کم آتے تھے مگر پھر میرے نمبر بھی اچھے آنے لگے۔“
اب ونیسا کی شادی ہو چکی ہے اور اُن کی دو بیٹیاں ہیں۔ اگرچہ اُن کے دل پر لگے زخموں کے نشان ابھی بھی باقی ہیں پھر بھی وہ ایک خوشگوار زندگی گزار رہی ہیں۔
کلسیوں 3:14۔
پاک کلام کا اصول: ”محبت کو جو کمال کا پٹکا ہے باندھ لو۔“—4. مشکلات کے باوجود ہمت نہ ہاریں
ہر اِنسان کی زندگی میں کوئی نہ کوئی مسئلہ ہوتا ہے۔ پاک صحیفوں میں لکھا ہے کہ ”رونے کا ایک وقت ہے اور . . . غم کھانے کا ایک وقت ہے۔“ (واعظ 3:4) لیکن اگر ہم مشکلات کے باوجود ہمت نہیں ہارتے تو ہماری خوشی قائم رہتی ہے۔ اِس سلسلے میں کیرل اور میلڈریڈ کی مثال پر غور کریں۔
کیرل کو شوگر ہے اور سوتے وقت اُنہیں سانس لینے میں مشکل ہوتی ہے۔ اِس کے علاوہ اُنہیں ریڑھ کی ہڈی کی بیماری ہے اور اُن کی بائیں آنکھ بھی کام نہیں کرتی۔ اِس کے باوجود وہ کہتی ہیں: ”مَیں مایوسی کو اپنے اُوپر زیادہ دیر تک حاوی نہیں رہنے دیتی۔ مَیں اپنی مشکلوں کے بارے میں سوچنے کی بجائے خدا کا شکر ادا کرتی ہوں کہ مَیں ابھی بھی دوسروں کی مدد کرنے کے قابل ہوں۔“
میلڈریڈ بھی بہت سی تکلیفوں کا سامنا کر رہی ہیں۔ اُنہیں شوگر اور چھاتی کا کینسر ہے۔ اِس کے علاوہ جوڑوں کے درد نے بھی اُن کی زندگی کو اجیرن بنا رکھا ہے۔ لیکن کیرل کی طرح وہ اپنی مشکلوں کے بارے میں اِتنا نہیں سوچتیں۔ وہ کہتی ہیں: ”مَیں لوگوں سے پیار کرتی ہوں اور بیماری میں مبتلا لوگوں کو تسلی دیتی ہوں۔ اِس سے مجھے بہت فائدہ ہوتا ہے۔ جب مَیں دوسروں کو تسلی دیتی ہوں تو میرا دھیان میرے اپنے مسئلوں سے ہٹ جاتا ہے۔“
یہ دونوں عورتیں چاہتی ہیں کہ اُنہیں اچھا علاج ملے۔ لیکن وہ ہر وقت اپنی صحت کے بارے میں پریشان رہنے کی بجائے اپنی سوچ کو مثبت رکھتی ہیں اور اپنے وقت کو دوسروں کی بھلائی کے لیے اِستعمال کرتی ہیں۔ اِس کے نتیجے میں اُنہیں دلی خوشی ملتی ہے جو کوئی بھی اُن سے چھین نہیں سکتا۔ اِس کے علاوہ لوگ اُن سے پیار کرتے ہیں۔ اور جو لوگ مشکلات سے گزر رہے ہیں، وہ اُن کی مثال سے حوصلہ پاتے ہیں۔
پاک کلام کا اصول: ”مبارک [یعنی خوش ہے] وہ شخص . . . جو آزمایش کی برداشت کرتا ہے کیونکہ جب مقبول ٹھہرا تو زندگی کا . . . تاج حاصل کرے گا۔“—یعقوب 1:12۔
جو لوگ خدا کے کلام بائبل میں دیے گئے اصولوں پر عمل کرتے ہیں، اُنہیں حقیقی خوشی ملے گی۔ (امثال 3:13-18) تو پھر کیوں نہ آپ بھی اِن اصولوں کو اپنی زندگی میں آزما کر دیکھیں۔ چونکہ خوشی خدا کی ذات کا ایک پہلو ہے اِس لیے وہ چاہتا ہے کہ آپ بھی خوش رہیں۔
^ پیراگراف 11 سلیمان نے اپنی زندگی کو پُرآسائش بنانے کے لیے جو کچھ بھی کِیا، اُس کا ذکر ہمیں واعظ 2:1-11 میں ملتا ہے۔ واعظ، بائبل کی ایک کتاب کا نام ہے۔
^ پیراگراف 17 ایک ایسا ہی گھناؤنا واقعہ پہلی صدی عیسوی میں پیش آیا۔ بائبل میں مرقس 15:10 میں بتایا گیا ہے کہ سردار کاہنوں نے حسد کی وجہ سے یسوع مسیح کو مروا ڈالا۔