خدا کے خادم خوش ہیں
خدا کے خادم خوش ہیں
”خوش ہیں وہ جو اپنی روحانی ضروریات سے باخبر ہیں۔“—متی ۵:۳، اینڈبلیو۔
۱. خوش ہونے سے کیا مُراد ہے اور یہوواہ کے خادم خوش کیوں ہیں؟
خدا کے خادم جانتے ہیں کہ زبورنویس داؤد کے یہ الفاظ کتنے سچ ہیں: ”[خوش] ہے وہ قوم جسکا خدا [یہوواہ] ہے۔“ (زبور ۱۴۴:۱۵) * خوش ہونے کا مطلب مطمئن ہونا اور سُکھچین محسوس کرنا ہے۔ یہ جاننے سے زیادہ اطمینان بخش کونسی بات ہو سکتی ہے کہ یہوواہ خدا ہمیں برکات سے نوازتا ہے؟ (امثال ۱۰:۲۲) ہماری خوشی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم خدا کے قریب ہیں اور اُسکی مرضی پوری کر رہے ہیں۔ (زبور ۱۱۲:۱؛ ۱۱۹:۱، ۲) دلچسپی کی بات ہے کہ یسوع مسیح نے خوش ہونے کی ۹ وجوہات بیان کی تھیں جن پر ہم اس مضمون اور اگلے میں بھی غور کرینگے۔ اس سے ہمیں اندازہ ہو جائیگا کہ یہوواہ خدا جسکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خوش ہے، اُسکی خدمت کرنے سے ہم کتنے خوش ہو سکتے ہیں۔
اپنی روحانی ضروریات سے باخبر
۲. یسوع نے کس موقع پر خوش ہونے کے بارے میں وضاحت کی اور اُس نے اپنا وعظ کن الفاظ سے شروع کِیا؟
۲ سن ۳۱ س.ع. میں یسوع مسیح نے انسانی تاریخ کا مشہورترین وعظ پیش کِیا۔ اسے پہاڑی وعظ کہا جاتا ہے کیونکہ یسوع نے اسے ایک پہاڑ متی ۵:۳، اینڈبلیو) یونانی زبان سے اس آیت کا لفظبہلفظ ترجمہ یہ ہے: ”خوش ہیں وہ جو روحانی طور پر غریب ہیں۔“ (متی ۵:۱-۳، کنگڈم اِنٹرلینئیر) اُردو ریوائزڈ ورشن میں اِس آیت کا یوں ترجمہ کِیا گیا ہے: ”مبارک ہیں وہ جو دِل کے غریب ہیں۔“
پر بیٹھے پیش کِیا تھا۔ متی کی انجیل میں اس واقعے کے بارے میں یوں لکھا ہے: ”[یسوع] اِس بِھیڑ کو دیکھ کر پہاڑ پر چڑھ گیا اور جب بیٹھ گیا تو اُسکے شاگرد اُسکے پاس آئے۔ اور وہ اپنی زبان کھول کر اُنکو یوں تعلیم دینے لگا۔ خوش ہیں وہ جو اپنی روحانی ضروریات سے باخبر ہیں کیونکہ آسمان کی بادشاہی اُن ہی کی ہے۔“ (۳. عاجز مسیحی حقیقی خوشی کیوں حاصل کرتے ہیں؟
۳ یسوع نے پہاڑی وعظ میں کہا کہ وہ شخص صحیح معنی میں خوش ہوتا ہے جو اس بات کو ماننے کیلئے تیار ہے کہ جسمانی ضروریات کے علاوہ وہ روحانی ضروریات بھی رکھتا ہے۔ عاجز مسیحی جانتے ہیں کہ وہ گنہگار ہیں اور انہیں خدا کی معافی کی ضرورت ہے۔ لہٰذا وہ یسوع کی قربانی کی بِنا پر اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔ (۱-یوحنا ۱:۹) اسطرح وہ دلی سکون اور حقیقی خوشی پاتے ہیں۔ زبورنویس نے کیا ہی خوب کہا کہ ”[خوش] ہے وہ جسکی خطا بخشی گئی اور جسکا گناہ ڈھانکا گیا۔“—زبور ۳۲:۱؛ ۱۱۹:۱۶۵۔
۴. (ا) ہم کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم اپنی اور اپنے پڑوسیوں کی روحانی ضروریات سے باخبر ہیں؟ (ب) کس بات پر غور کرنے سے ہماری خوشی کی انتہا نہیں رہتی؟
۴ اپنی روحانی ضروریات سے باخبر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہم روزانہ بائبل کی پڑھائی کریں، اُس روحانی خوراک پر غور کریں جو ہمیں ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ کی طرف سے ”وقت پر“ ملتی ہے اور باقاعدگی سے مسیحی اجلاسوں پر حاضر بھی ہوں۔ (متی ۲۴:۴۵؛ زبور ۱:۱، ۲؛ ۱۱۹:۱۱۱؛ عبرانیوں ۱۰:۲۵) ہم اپنے پڑوسیوں سے محبت رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ انکی بھی روحانی ضروریات ہیں۔ اسلئے ہم انکو بادشاہتی خوشخبری سنانے اور بائبل کی سچائیاں سکھانے میں پوری محنت کرتے ہیں۔ (مرقس ۱۳:۱۰؛ رومیوں ۱:۱۴-۱۶) ایسا کرنے سے ہماری اپنی خوشی بھی بڑھ جاتی ہے۔ (اعمال ۲۰:۲۰، ۳۵) اسکے علاوہ جب ہم اس اُمید پر غور کرتے ہیں جو ہم خدا کی بادشاہت کی بِنا پر رکھتے ہیں تو ہماری خوشی کی انتہا نہیں رہتی۔ وہ مسیحی جو ”چھوٹے گلّے“ میں سے ہیں، اُن کیلئے یہ اُمید تب پوری ہوگی جب وہ آسمان پر ہمیشہ کیلئے یسوع کی حکومت کے حصہدار ہونگے۔ (لوقا ۱۲:۳۲؛ ۱-کرنتھیوں ۱۵:۵۰، ۵۴) اور جو مسیحی ’دوسری بھیڑوں‘ میں شامل ہیں وہ یسوع کی بادشاہت کی رعایا کے طور پر ہمیشہ تک زمینی فردوس میں رہنے کی اُمید تھامے ہوئے ہیں۔—یوحنا ۱۰:۱۶؛ زبور ۳۷:۱۱؛ متی ۲۵:۳۴، ۴۶۔
خوش ہیں وہ جو غمگین ہیں
۵. (ا) متی ۵:۴ میں یسوع کس خاص قسم کے غم کا ذکر کر رہا تھا؟ (ب) غمگین اشخاص کیسے تسلی پا سکتے ہیں؟
۵ یسوع نے خوش ہونے کی اگلی وجہ یوں بتائی: ”[خوش] ہیں وہ جو غمگین ہیں کیونکہ وہ تسلی پائینگے۔“ (متی ۵:۴) کیا ایک شخص غمگین ہونے کیساتھ ساتھ خوش بھی ہو سکتا ہے؟ دراصل اس آیت میں یسوع ایک خاص قسم کے غم کا ذکر کر رہا تھا۔ یسوع کے شاگرد یعقوب نے کہا تھا کہ ہمیں اسلئے غمگین ہونا چاہئے کیونکہ ہم گنہگار انسان ہیں۔ وہ کہتا ہے: ”اَے گنہگارو! اپنے ہاتھوں کو صاف کرو اور اَے دو دِلو! اپنے دلوں کو پاک کرو۔ افسوس اور ماتم کرو اور روؤ۔ تمہاری ہنسی ماتم سے بدل جائے اور تمہاری خوشی اُداسی سے۔ [یہوواہ] کے سامنے فروتنی کرو۔ وہ تمہیں سربلند کریگا۔“ (یعقوب ۴:۸-۱۰) ایسے غمگین اشخاص تسلی پا سکتے ہیں کیونکہ خدا اُنکے گناہوں کو معاف کرنے کیلئے تیار ہے۔ معافی حاصل کرنے کیلئے اُنہیں اس بات پر ایمان لانا ہوگا کہ یسوع نے اپنی جان اُنکے لئے قربان کی ہے۔ اسکے علاوہ اُنہیں خدا کی مرضی پر چلنا ہوگا کیونکہ ایسا کرنے سے وہ ظاہر کرتے ہیں کہ اُنہوں نے واقعی اپنی بُری روش سے توبہ کر لی ہے۔ (یوحنا ۳:۱۶؛ ۲-کرنتھیوں ۷:۹، ۱۰) اسطرح وہ خدا کے نزدیک جا سکیں گے اور ہمیشہ تک خدا کی تمجید کرتے رہنے کی اُمید باندھ سکیں گے۔ نتیجتاً وہ دلی خوشی محسوس کرینگے۔—رومیوں ۴:۷، ۸۔
۶. بعض لوگ کس وجہ سے غمگین ہیں اور وہ کس بات کو جان کر تسلی پاتے ہیں؟
۶ متی ۵:۴ میں یسوع اُن لوگوں کا بھی ذکر کر رہا تھا جو اس دُنیا کے کٹھن حالات کی وجہ سے غمگین ہیں۔ اُس نے یسعیاہ ۶۱:۱، ۲ میں درج پیشینگوئی کا اطلاق خود پر کرتے ہوئے کہا کہ ”[یہوواہ] خدا کی رُوح مجھ پر ہے کیونکہ اُس نے مجھے مسح کِیا تاکہ حلیموں کو خوشخبری سناؤں۔ اُس نے مجھے بھیجا ہے کہ شکستہ دلوں کو تسلی دوں۔ . . . اور سب غمگینوں کو دلاسا دوں۔“ یہی کام اُن ممسوح مسیحیوں کو بھی سونپا گیا ہے جو ابھی تک زمین پر زندہ ہیں اور وہ ’دوسری بھیڑوں‘ کی مدد سے اس ذمہداری پر پورا اُتر رہے ہیں۔ اسطرح تمام مسیحی اُن لوگوں کی پیشانی پر نشان لگا رہے ہیں ”جو اُن سب نفرتی کاموں کے سبب سے جو [برگشتہ یروشلیم یعنی دُنیائےمسیحیت] کے درمیان کئے جاتے ہیں آہیں مارتے اور روتے ہیں۔“ (حزقیایل ۹:۴) ’بادشاہی کی خوشخبری‘ کو سُن کر غمگین لوگ دلی سکون محسوس کرتے ہیں۔ (متی ۲۴:۱۴) وہ یہ جان کر بہت خوش ہوتے ہیں کہ شیطان کا بُرا نظام جلد ہی ختم کر دیا جائیگا اور خدا اسکے بدلے میں ایک ایسی نئی دُنیا لائیگا جس میں بُرائی کا نامونشان نہ ہوگا۔
خوش ہیں وہ جو حلیم ہیں
۷. ”حلیم“ شخص کے بارے میں کونسا غلط نظریہ پایا جاتا ہے؟
۷ یسوع اپنے وعظ کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے کہ ”[خوش] ہیں وہ جو حلیم ہیں کیونکہ وہ زمین کے وارث ہونگے۔“ (متی ۵:۵) اکثر حلم کو ایک خوبی کے طور پر نہیں بلکہ ایک کمزوری کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یہ نظریہ غلط ہے۔ بائبل کا ایک عالم اُس یونانی لفظ کی وضاحت کرتے ہوئے جسکا ترجمہ اُردو میں ”حلیم“ سے کِیا گیا ہے، یوں کہتا ہے: ”ایک حلیم شخص خود پر پورا پورا اختیار رکھتا ہے۔ لہٰذا حلم انسان کی بےبسی، لاتعلقی یا پھر اُسکے جذباتی ہونے کا دوسرا نام نہیں ہے۔ بلکہ یہ خوبی ایک شخص کی اندرونی طاقت کو ظاہر کرتی ہے۔“ یسوع نے اپنے بارے میں یوں کہا: ”مَیں حلیم ہوں اور دل کا فروتن۔“ (متی ۱۱:۲۹) لیکن حلیم ہونے کیساتھ ساتھ یسوع اُن لوگوں کو بڑی دلیری سے خبردار بھی کرتا رہا جو خدا کے معیاروں کی خلافورزی کر رہے تھے۔—متی ۲۱:۱۲، ۱۳؛ ۲۳:۱۳-۳۳۔
۸. حلم کا کس دوسری خوبی سے گہرا تعلق ہے اور ہمیں دوسروں کیساتھ اپنے تعلقات میں اس خوبی کو کیوں پیدا کرنا چاہئے؟
۸ ایک حلیم شخص خود پر قابو رکھتا ہے۔ اسلئے حلم اور پرہیزگاری کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے۔ پولس رسول نے ’روح کے پھل‘ کی فہرست دیتے ہوئے حلم کے فوراً بعد پرہیزگاری کا ذکر کِیا۔ (گلتیوں ۵:۲۲، ۲۳) ہم رُوحاُلقدس کی مدد سے خود میں حلم پیدا کر سکتے ہیں۔ اِس خوبی کی بِنا پر دوسروں کیساتھ ہمارے تعلقات میں امن بڑھتا ہے، چاہے وہ کلیسیا کے رُکن ہوں یا نہیں۔ پولس نے لکھا کہ ”دردمندی اور مہربانی اور فروتنی اور حلم اور تحمل کا لباس پہنو۔ اگر کسی کو دوسرے کی شکایت ہو تو ایک دوسرے کی برداشت کرے اور ایک دوسرے کے قصور معاف کرے۔“—کلسیوں ۳:۱۲، ۱۳۔
۹. (ا) ہمیں خدا کے سامنے حلیم ہونے کی ضرورت کیوں ہے؟ (ب) حلیم لوگ ”زمین کے وارث“ کیسے ہونگے؟
۹ ہمیں خدا کے سامنے بھی حلیم ہونے کی ضرورت ہے۔ حلیم لوگ خوشی سے یہوواہ خدا کی حاکمیت کو قبول کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں یسوع نے سب سے اچھی مثال قائم کی۔ جب وہ زمین پر تھا تو اُس نے اس خوبی کو ظاہر کِیا۔ یسوع ہر کام خدا کی مرضی کے عین مطابق کرتا تھا۔ (یوحنا ۵:۱۹، ۳۰) اسلئے یسوع نے زمین کو ورثہ میں پایا ہے یعنی اُسے زمین کے حکمران کے طور پر مقرر کِیا گیا ہے۔ (زبور ۲:۶-۸؛ دانیایل ۷:۱۳، ۱۴) یسوع کی حکمرانی میں ۰۰۰،۴۴،۱ ”ہممیراث“ بھی اسکا ساتھ دینگے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ”آدمیوں میں سے خرید“ لیا گیا ہے تاکہ وہ ”زمین پر بادشاہی“ کر سکیں۔ (رومیوں ۸:۱۷؛ مکاشفہ ۵:۹، ۱۰؛ ۱۴:۱، ۳، ۴؛ دانیایل ۷:۲۷) یہ اشخاص یسوع کیساتھ ملکر اُن کروڑوں راستباز لوگوں پر حکومت کرینگے جن پر زبورنویس کی یہ پیشینگوئی تکمیل پاتی ہے: ”حلیم مُلک کے وارث ہونگے اور سلامتی کی فراوانی سے شادمان رہینگے۔“—زبور ۳۷:۱۱؛ متی ۲۵:۳۳، ۳۴، ۴۶۔
خوش ہیں وہ جو راستبازی کے بھوکے ہیں
۱۰. راستبازی کے بھوکے اور پیاسے لوگ کیسے آسُودہ ہو سکتے ہیں؟
۱۰ یسوع خوش ہونے کی چوتھی وجہ یوں بیان کرتا ہے: ”[خوش] ہیں وہ جو راستبازی کے بھوکے اور پیاسے ہیں کیونکہ وہ آسُودہ ہونگے۔“ (متی ۵:۶) راستباز ہونے میں کیا کچھ شامل ہے؟ یہ بات مسیحیوں کیلئے یہوواہ خدا ہی مقرر کرتا ہے۔ لہٰذا وہ لوگ جو راستبازی کے بھوکے اور پیاسے ہیں دراصل خدا کی راہنمائی کے بھوکے اور پیاسے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ جانتے ہیں کہ وہ گنہگار اور ناکامل ہیں۔ انکی سب سے بڑی خواہش یہی ہوتی ہے کہ خدا اُنہیں قبول کر لے۔ جب وہ خدا کے کلام میں پڑھتے ہیں کہ توبہ کرنے اور یسوع کی قربانی پر ایمان لانے سے خدا اُنہیں راستباز قرار دینے کو تیار ہے تو وہ بہت خوش ہوتے ہیں۔—اعمال ۲:۳۸؛ ۱۰:۴۳؛ ۱۳:۳۸، ۳۹؛ رومیوں ۵:۱۹۔
۱۱، ۱۲. (ا) ممسوح مسیحیوں کو کیسے راستباز ٹھہرایا جاتا ہے؟ (ب) زمین پر زندہ رہنے کی اُمید رکھنے والے مسیحی کیسے آسُودہ کئے جائینگے؟
۱۱ یسوع نے کہا کہ ایسے لوگ اسلئے خوش ہیں کیونکہ وہ ”آسُودہ“ ہونگے یعنی سیر کئے جائینگے۔ (متی ۵:۶) ممسوح مسیحی آسمان میں یسوع کیساتھ ”بادشاہی کرینگے۔“ خدا اُنکو پہلے ہی سے ’راستباز ٹھہرا کر زندگی‘ بخشتا ہے۔ (رومیوں ۵:۱، ۹، ۱۶-۱۸) یہوواہ خدا اُنہیں اپنے لےپالک روحانی بیٹوں کے طور پر قبول کر لیتا ہے۔ اسطرح وہ یسوع کے ہممیراث بن جاتے ہیں اور انہیں یسوع کی بادشاہت میں بادشاہوں اور کاہنوں کے طور پر بلاوا ملتا ہے۔—یوحنا ۳:۳؛ ۱-پطرس ۲:۹۔
۱۲ اُن مسیحیوں کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے جو ہمیشہ کیلئے زمین پر زندہ رہنے کی اُمید رکھتے ہیں؟ فیالحال اُنہیں مکمل طور پر راستباز نہیں یعقوب ۲:۲۲-۲۵؛ مکاشفہ ۷:۹، ۱۰) یہوواہ خدا اُنہیں اپنے دوستوں کے طور پر قبول کر لیتا ہے۔ اس سبب سے وہ ”بڑی مصیبت“ سے بچ نکلنے کی اُمید تھام سکتے ہیں۔ (مکاشفہ ۷:۱۴) پھر جب وہ ”نئے آسمان“ یعنی یسوع کی حکومت کے تحت نئی زمین میں شامل ہونگے تو وہ بالکل آسُودہ ہو جائینگے کیونکہ اس نئی زمین میں ”راستبازی بسی رہیگی۔“—۲-پطرس ۳:۱۳؛ زبور ۳۷:۲۹۔
ٹھہرایا جاتا۔ لیکن چونکہ وہ یسوع کے بہائے ہوئے خون پر ایمان لاتے ہیں اسلئے یہوواہ اُنہیں ایک حد تک راستباز ٹھہراتا ہے۔ (خوش ہیں وہ جو رحمدل ہیں
۱۳، ۱۴. ہم دوسروں کیساتھ اپنے برتاؤ میں کیسے رحمدلی ظاہر کر سکتے ہیں اور ایسا کرنے سے ہم کونسا اجر پائینگے؟
۱۳ یسوع نے اپنے وعظ کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ”[خوش] ہیں وہ جو رحمدل ہیں کیونکہ اُن پر رحم کِیا جائیگا۔“ (متی ۵:۷) جب ایک جج ملزم کا لحاظ کرتے ہوئے اسکی سزا کم کر دیتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ اُس نے ملزم پر رحم کِیا۔ لیکن بائبل میں جن یونانی الفاظ کا ترجمہ ”رحم“ سے کِیا گیا ہے انکا مطلب بےبس لوگوں پر ترس کھا کر اُنکی مدد کرنا ہے۔ لہٰذا رحمدل وہ ہوتے ہیں جو بےسہارا لوگوں پر صرف منہبولا ترس نہیں کھاتے بلکہ اُنکی مدد بھی کرتے ہیں۔ یسوع نے نیک سامری کی تمثیل سے بےبسوں ”پر رحم“ کرنے والے شخص کی اچھی مثال پیش کی۔—لوقا ۱۰:۲۹-۳۷۔
۱۴ اگر ہم خوشی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی حاجتمندوں کیساتھ نیکی کرنی چاہئے۔ (گلتیوں ۶:۱۰) یسوع جب بھی بےسہارا لوگوں کو دیکھتا تو ’اُسے اُن پر ترس آتا کیونکہ وہ اُن بھیڑوں کی مانند تھے جنکا چرواہا نہ ہو اور وہ انکو بہت سی باتوں کی تعلیم دیتا۔‘ (مرقس ۶:۳۴) یسوع جانتا تھا کہ انسان کیلئے اپنی روحانی ضروریات کو پورا کرنا سب سے اہم بات ہے۔ ہم بھی دوسروں پر رحم کرکے اُنہیں ’بادشاہی کی خوشخبری‘ سناتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ایسا کرنے سے ہم انکی سب سے بڑی ضرورت کو پورا کر سکتے ہیں۔ (متی ۲۴:۱۴) اسکے علاوہ ہم عمررسیدہ مسیحیوں، یتیموں اور بیواؤں کا ہاتھ بٹاتے ہیں اور ”کمہمتوں کو دلاسا“ بھی دیتے ہیں۔ (۱-تھسلنیکیوں ۵:۱۴؛ امثال ۱۲:۲۵؛ یعقوب ۱:۲۷) اسطرح رحمدلی ظاہر کرنے سے ہم حقیقی خوشی حاصل کرتے ہیں اور سب سے بڑا اجر یہ ہے کہ یہوواہ خدا ہم پر بھی رحم کریگا۔—اعمال ۲۰:۳۵؛ یعقوب ۲:۱۳۔
خوش ہیں وہ جو پاک دل اور صلح کرانے والے ہیں
۱۵. ہم پاکدل اور صلح کرانے والے کیسے بن سکتے ہیں؟
۱۵ یسوع نے خوش ہونے کی چھٹی اور ساتویں وجہ یوں بیان کی: ”[خوش] ہیں وہ جو پاکدل ہیں کیونکہ وہ خدا کو دیکھینگے۔ [خوش] ہیں وہ جو صلح کراتے ہیں کیونکہ وہ خدا کے بیٹے کہلائینگے۔“ (متی ۵:۸، ۹) ایک پاکدل شخص اخلاقی اور روحانی طور پر پاک ہوتا ہے۔ اسکے علاوہ وہ صرف اور صرف یہوواہ خدا کی عبادت کرتا ہے۔ (۱-تواریخ ۲۸:۹؛ زبور ۸۶:۱۱) صلح کرانے والا شخص اپنے مسیحی بہنبھائیوں اور جہاں تک ہو سکتا ہے اپنے پڑوسیوں کیساتھ بھی اچھے تعلقات بڑھاتا ہے۔ (رومیوں ۱۲:۱۷-۲۱) ایک ایسا شخص ’صلح کا طالب ہو کر اُسکی کوشش میں رہتا ہے۔‘—۱-پطرس ۳:۱۱۔
۱۶، ۱۷. (ا) ممسوح مسیحی ”خدا کے بیٹے“ کیوں کہلاتے ہیں اور وہ ’خدا کو کیسے دیکھ‘ سکیں گے؟ (ب) ’دوسری بھیڑیں‘ کس لحاظ سے ’خدا کو دیکھ‘ سکتی ہیں؟ (پ) ’دوسری بھیڑیں‘ کب واقعی ’خدا کے بیٹوں‘ کے طور پر قبول ہو جائینگی؟
۱۶ پاکدل اور صلح کرانے والے لوگوں کے بارے میں متی میں کہا گیا ہے کہ ”وہ خدا کے بیٹے کہلائینگے“ اور یہ بھی کہ ”وہ خدا کو دیکھینگے۔“ جب ممسوح مسیحی زمین پر ہی ہوتے ہیں تو یہوواہ خدا اُنہیں اپنے لےپالک بیٹوں کے طور پر قبول کر لیتا ہے۔ ( ۵:۸، ۹رومیوں ۸:۱۴-۱۷) پھر جب وہ وفات پاتے ہیں تو اُنہیں آسمان پر جیاُٹھایا جاتا ہے جہاں وہ یسوع کیساتھ ہوتے ہیں۔ آسمان پر یہ اشخاص یہوواہ کی خدمت کرتے ہیں اور اُسے واقعی دیکھ سکتے ہیں۔—۱-یوحنا ۳:۱، ۲؛ مکاشفہ ۴:۹-۱۱۔
۱۷ ’دوسری بھیڑوں‘ میں شامل مسیحی بھی دلوجان سے یہوواہ خدا کی خدمت کر رہے ہیں۔ وہ ایسا اپنے ’اچھے چرواہے‘ یسوع مسیح کی نگرانی میں کرتے ہیں جو اُنکا ”ابدیت کا باپ“ بھی ہے۔ (یوحنا ۱۰:۱۴، ۱۶؛ یسعیاہ ۹:۶) جو مسیحی یسوع کی ہزارسالہ بادشاہت کے بعد آنے والے امتحان پر پورا اُترینگے اُنہیں یہوواہ خدا اپنے زمینی لےپالک بیٹوں کے طور پر قبول کر لیگا۔ تب وہ بھی واقعی ’خدا کے فرزندوں کے جلال کی آزادی میں داخل ہو جائینگے۔‘ (رومیوں ۸:۲۱؛ مکاشفہ ۲۰:۷، ۹) ایسے مسیحی جانتے ہیں کہ یہوواہ خدا ہی زندگی کا سرچشمہ ہے اور اُنہوں نے دلوجان سے اُس کی عبادت کرنے کا وعدہ کِیا ہے۔ اس لئے وہ ابھی سے ہی یہوواہ کو ”باپ“ کہہ کر اُس سے مخاطب ہوتے ہیں۔ (یسعیاہ ۶۴:۸) ایوب اور موسیٰ جیسے نبیوں کی طرح وہ بھی اپنے ایمان کی بِنا پر ’خدا کو دیکھ‘ سکتے ہیں۔ (ایوب ۴۲:۵؛ عبرانیوں ۱۱:۲۷) اُنہوں نے خدا کے بارے میں علم حاصل کِیا ہے اسلئے انکی ”دل کی آنکھیں“ کھل گئی ہیں۔ اب وہ خدا کی خوبیوں کو پہچاننے لگے ہیں اور اُس کی مرضی بجا لانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔—افسیوں ۱:۱۸؛ رومیوں ۱:۱۹، ۲۰؛ ۳-یوحنا ۱۱۔
۱۸. یسوع کے مطابق کون لوگ واقعی خوش ہیں؟ سات نکات بیان کریں۔
۱۸ اس مضمون میں ہم نے دیکھا ہے کہ جو لوگ اپنی روحانی ضروریات سے باخبر ہیں، غمگین ہیں، حلیم ہیں، راستبازی کے بھوکے اور پیاسے ہیں، رحمدل ہیں، پاکدل ہیں اور وہ جو صلح کراتے ہیں یہوواہ کی خدمت میں حقیقی خوشی پاتے ہیں۔ لیکن ایسے لوگ مخالفت کا سامنا کرتے ہیں اور انہیں طرح طرح کی اذیتیں بھی پہنچائی جاتی ہیں۔ کیا اس وجہ سے انکی خوشی کم ہو جاتی ہے؟ اس سوال کا جواب ہم اگلے مضمون میں پائینگے۔
اپنی یاد تازہ کریں
• وہ لوگ جو اپنی روحانی ضروریات سے باخبر ہیں خوش کیوں ہیں؟
• غمگین لوگ کسطرح تسلی پاتے ہیں؟
• ہم کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم حلیم ہیں؟
• ہمیں رحمدل، پاکدل اور صلح کرانے والے کیوں ہونا چاہئے؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۱۰ پر تصویر]
’خوش ہیں وہ جو اپنی روحانی ضروریات سے باخبر ہیں‘
[صفحہ ۱۰ پر تصویر]
’خوش ہیں وہ جو رحمدل ہیں‘
[صفحہ ۱۰ پر تصویر]
’خوش ہیں وہ جو راستبازی کے بھوکے اور پیاسے ہیں‘
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 1 جس یونانی لفظ کا ترجمہ اُردو کی ریوائزڈ ورشن بائبل میں ”مبارک“ سے کِیا گیا ہے اسکا زیادہ درست ترجمہ ”خوش“ سے کِیا جاتا ہے۔ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن کے علاوہ بائبل کے دیگر دوسرے ترجموں میں بھی لفظ ”مبارک“ کی بجائے لفظ ”خوش“ استعمال کِیا گیا ہے۔ اس بات کو مدِّنظر رکھتے ہوئے ہم نے اس مضمون میں اور اگلے میں بھی لفظ ”خوش“ کو استعمال کِیا ہے۔