ہم خدا کی حکمرانی کی حمایت کرتے رہے
میری کہانی میری زبانی
ہم خدا کی حکمرانی کی حمایت کرتے رہے
از میکال ژوبراک
مَیں نے ایک مہینہ قیدِتنہائی میں کاٹا تھا۔ پھر میری پوچھگچھ شروع ہو گئی۔ خفیہ پولیس افسر نے مجھ سے پوچھا کہ ”تُم کس مذہب سے تعلق رکھتے ہو؟“ اس پر مَیں نے جواب دیا کہ ”مَیں یہوواہ کا ایک گواہ ہوں۔“ افسر لال بھبوکا ہو کر چیخنے لگا: ”تُم جاسوس ہو۔ امریکی جاسوس!“
یہ تقریباً ۵۰ سال پہلے کا واقعہ ہے۔ اُس وقت میرے مُلک میں کمیونسٹ حکومت کر رہے تھے۔ لیکن ہمیں اس سے بہت عرصہ پہلے ہی سے اپنے مذہب کی وجہ سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
جنگ کا دردناک تجربہ
جب ۱۹۱۴ میں پہلی عالمی جنگ شروع ہوئی تو مَیں ۸ سال کا تھا۔ اُس وقت میرا گاؤں اُس علاقے میں پڑتا تھا جس پر آسٹریا اور ہنگری کا شہنشاہ حکمرانی کرتا تھا۔ جنگ کی وجہ سے نہ صرف دُنیا کا نقشہ بدل گیا بلکہ ہماری زندگیوں میں بھی بڑی تبدیلیاں آئیں۔ میرے والد فوجی تھے اور پہلی عالمی جنگ کے پہلے سال ہی میں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس وجہ سے ہمارا خاندان شدید غربت کا شکار بن گیا۔ اب والدہ اور دو چھوٹی بہنوں کی دیکھبھال میرے ذمے پڑی۔ مَیں کاشتکاری کرکے اپنے خاندان کا پیٹ پالتا تھا۔ مجھے مذہب میں بہت دلچسپی تھی۔ اسلئے ہمارے گاؤں کے پادری صاحب جب بھی چھٹی پر جاتے تو مجھے مذہبی تعلیم کی کلاس لینے کی ذمہداری سونپ جاتے۔
وہ کتنی خوشی کا وقت تھا جب ۱۹۱۸ میں پہلی عالمی جنگ ختم ہوئی۔ جنگ کی وجہ سے آسٹریا اور ہنگری کے شہنشاہ کا تخت اُلٹ گیا۔ اب ہمارا گاؤں مُلک چیکوسلواکیہ کے علاقے میں پڑتا تھا۔ جنگ سے پہلے ہمارے علاقے کے بہت سے لوگ امریکا منتقل ہو گئے تھے۔ لیکن اب اُن میں سے بعض
واپس لوٹ آئے۔ ان میں میکال پیٹرک نامی ایک شخص بھی شامل تھے۔ جب وہ ۱۹۲۲ میں ہمارے پڑوسی سے ملنے آئے تو میری والدہ اور مَیں بھی وہاں موجود تھے۔خدا کی حکمرانی ایک حقیقت
میکال یہوواہ کا ایک گواہ تھا۔ اُس نے ہمیں بائبل میں سے بہت سی باتیں سکھائیں۔ مَیں فوراً اِن میں دلچسپی لینے لگا۔ خاص کر جب میکال نے ہمیں خدا کی بادشاہت کے بارے میں بتایا تو مَیں نے کان کھڑے کر دئے۔ (دانیایل ۲:۴۴) جاتے وقت اُس نے ہمیں بتایا کہ اگلے اتوار کو ایک گاؤں میں مسیحی اجلاس منعقد ہونے والا تھا۔ یہ گاؤں ہمارے گاؤں سے تقریباً ۳۲ کلومیٹر [۲۰ میل] دُور تھا۔ لہٰذا اتوار کے روز مَیں صبح چار بجے اُٹھا اور پیدل چل کر اپنے ایک رشتہدار کے گھر پہنچا جو ہم سے ۸ کلومیٹر [۵ میل] دُور رہتا تھا۔ اُس نے مجھے اپنی سائیکل دی جس پر مَیں سوار ہو کر چل دیا۔ راستے میں میرا ایک ٹائر پنکچر ہو گیا۔ اسکی مرمت کرنے کے بعد مَیں آخرکار اُس گاؤں میں پہنچ گیا جہاں اجلاس منعقد ہونے کو تھا۔ لیکن مجھے معلوم نہ تھا کہ اجلاس کہاں منعقد ہو رہا تھا۔ لہٰذا مَیں آہستہ آہستہ سے سائیکل چلاتے ہوئے گلیوں سے گزرتا گیا۔ اچانک مَیں نے ایک جانیپہچانی دُھن سنی۔ کیا یہ یہوواہ کے گواہوں کا ایک گیت نہ تھا؟ گھر کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجھے پتہ چلا کہ وہاں واقعی یہوواہ کے گواہ رہتے ہیں۔ انہوں نے مجھے ناشتہ دیا اور پھر ہم سب ملکر اجلاس پر گئے۔ اگرچہ مجھے گھر لوٹنے کیلئے دوبارہ ۳۲ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑا لیکن مَیں اتنا خوش تھا کہ مَیں نے کوئی تھکاوٹ محسوس نہ کی۔—یسعیاہ ۴۰:۳۱۔
یہوواہ کے گواہوں کے بارے میں مجھے جو بات سب سے زیادہ اچھی لگی وہ یہ تھی کہ اُنکی ہر تعلیم بائبل پر مبنی ہے۔ مَیں خاص طور پر اُس وقت کا مشتاق تھا جب خدا کی حکمرانی کے تحت تمام انسان اطمینان کی زندگی گزارینگے۔ (زبور ۱۰۴:۲۸) میری والدہ اور مَیں نے اپنے پادری کو ایک خط میں اطلاع کر دی کہ ہم چرچ سے اپنا تعلق کاٹ رہے ہیں۔ یہ خبر پورے گاؤں میں پھیل گئی۔ کئی لوگ اب ہم سے بات تک نہ کرتے۔ لیکن ہم اپنے علاقے کے یہوواہ کے گواہوں سے میلملاپ رکھتے تھے۔ اسلئے گاؤں کے لوگوں کے اس برتاؤ کا ہم پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ (متی ۵:۱۱، ۱۲) اسکے تھوڑے عرصہ بعد مَیں نے ایک دریا میں بپتسمہ لے لیا۔
خدا کی خدمت ہماری زندگی کا مقصد
ہم ہر موقعے پر لوگوں کو یہوواہ خدا کی بادشاہت کے بارے میں بتاتے۔ (متی ۲۴:۱۴) اسکے علاوہ اتوار کو ہمارا مُنادی کا خاص دن ہوتا تھا۔ اُس زمانے میں لوگ مُنہاندھیرے اُٹھ کر دن کا آغاز کرتے تھے۔ اسلئے ہم صبحسویرے ہی کسی طےشُدہ علاقے میں پہنچ کر لوگوں کو بائبل کا پیغام سنانے لگتے۔ جب دن چڑھ جاتا تو ہمارا ایک بھائی تقریر پیش کرتا۔ ان بھائیوں کے پاس نوٹس نہیں ہوتے تھے۔ وہ اپنی تقریر یہ دیکھ کر پیش کرتے کہ کتنے لوگ حاضر ہیں اور وہ کس مضمون میں خاص دلچسپی لیتے ہیں۔
بہت سے لوگ بائبل کے پیغام میں دلچسپی لینے لگے۔ میرے بپتسمہ کے تھوڑے عرصے بعد مَیں پاس ہی ایک گاؤں میں مُنادی کر رہا تھا کہ میری ملاقات موسکل صاحبہ سے ہوئی۔ یہ خاتون اپنے خاندان سمیت پروٹسٹنٹ رہنما کیلوِن کی پیروکار تھیں۔ یہوواہ کا گواہ بننے سے پہلے مَیں بھی اسی فرقے سے تعلق رکھتا تھا۔ موسکل صاحبہ بائبل کے بارے میں کافی علم رکھتی تھیں لیکن پھر بھی اُنہوں نے مجھ سے بہت سے سوال کئے۔ ایک گھنٹے کی گفتگو کے بعد مَیں نے اُنکو ایک کتاب (دی ہارپ آف گاڈ) پیش کی۔ *
موسکل خاندان کے افراد باقاعدگی سے ملکر بائبل پڑھا کرتے تھے۔ اب انہوں نے اس معمول میں اس کتاب کی پڑھائی بھی شامل کر دی جسے مَیں وہاں چھوڑ گیا تھا۔ اس خاندان کے علاوہ گاؤں کے اَور بھی خاندان ہمارے مسیحی اجلاسوں پر حاضر ہونے لگے۔ یہ بات پادری کو اچھی نہیں لگی اور اُس نے گاؤں کے لوگوں کو یہوواہ کے گواہوں سے ملنے اور اُنکی کتابوں کو پڑھنے سے خبردار کر دیا۔ اس پر گاؤں کے لوگوں نے پادری کو ہمارے اجلاس پر حاضر ہونے اور یہوواہ کے گواہوں کی تعلیمات کو جھوٹا ثابت کرنے کی دعوت دی۔
لہٰذا پادری اگلے اجلاس پر حاضر ہو گیا۔ لیکن اُس نے اپنے چرچ کی تعلیمات کو ثابت کرنے کیلئے ایک بار بھی بائبل استعمال نہ کی۔ بحث کے دوران اُس نے کہا کہ ”ہمیں ہر اس بات پر یقین نہیں کرنا چاہئے جو بائبل
میں درج ہے۔ یہ تو انسانوں کی لکھی ہوئی ہے۔ اسکے پیغام کو بہت سے مختلف طریقوں سے سمجھا جا سکتا ہے۔“ یہ سُن کر گاؤں کے بہتیرے لوگوں کی آنکھیں کُھل گئیں۔ انہوں نے اسی وقت پادری سے کہہ دیا کہ اگر آپ بائبل پر ایمان نہیں رکھتے تو ہم چرچ آنا اور آپکے وعظ سننا بند کر دینگے۔ اس گاؤں کے تقریباً ۳۰ افراد نے بائبل کی سچائیوں کو اپنا لیا۔خدا کی بادشاہت کا پیغام لوگوں تک پہنچانا میری زندگی بن گئی۔ اسلئے مَیں ایک ایسے جیونساتھی کی تلاش میں تھا جو اس کام میں پورے دل سے میرا ساتھ دے۔ میری ملاقات بھائی یان پطروشکا سے ہوئی جنہوں نے امریکا میں سچائی پائی تھی۔ اُنکی بیٹی ماریا اپنے والد کی طرح ہر موقعے پر خدا کے بارے میں گواہی دیتی۔ اُسکی یہ بات مجھے بہت پسند آئی۔ لہٰذا مَیں نے ۱۹۳۶ میں اُس سے شادی کر لی۔ ماریا نے ۵۰ سال تک میرا ساتھ دیا۔ پھر سن ۱۹۸۶ میں وہ فوت ہو گئی۔ ہمارا بیٹا ایڈوارڈ ۱۹۳۸ میں پیدا ہوا۔ اس وقت یورپ پر جنگ کے کالے بادل چھائے ہوئے تھے۔ اس بات کا یہوواہ کے گواہوں کے کام پر کیا اثر پڑا؟
آزمایشوں کی شروعات
دوسری عالمی جنگ شروع ہونے پر ہمارا علاقہ جرمن نازی حکومت کے قبضے میں آ گیا۔ حکومت نے یہوواہ کے گواہوں کی تنظیم پر پابندیاں عائد تو نہیں کیں لیکن پھر بھی ہمیں بڑے احتیاط سے کام لینا پڑا۔ ہماری کتابوں اور رسالوں کی جانچپڑتال ہوتی تھی۔ اسکے باوجود ہم نے مُنادی کا کام جاری رکھا۔—متی ۱۰:۱۶۔
یورپ میں جنگ کی آگ پھیل رہی تھی۔ اسلئے مجھے فوج میں بھرتی ہونے کا حکم دیا گیا۔ اُس وقت میری عمر ۳۵ سال سے زیادہ تھی۔ مَیں جانتا تھا کہ سچے مسیحی جنگ میں حصہ نہیں لیتے اسلئے مَیں نے فوج میں بھرتی ہونے سے صاف انکار کر دیا۔ (یسعیاہ ۲:۲-۴) اس سے پہلے کہ میرے اس فیصلے پر ردِعمل کِیا جاتا حکومت کی طرف سے اعلان ہو گیا کہ ۳۵ سال سے زیادہ عمر رکھنے والوں کو فوج میں بھرتی نہیں ہونا پڑیگا۔
گاؤں میں ہمیں خوراک کی کوئی کمی نہ تھی۔ لیکن شہر میں رہنے والے ہمارے مسیحی بہنبھائی اپنی روزمرّہ ضروریات پورا کرنے میں سخت دقت محسوس کر رہے تھے۔ ہم اُنکی اس کمی کو پورا کرنا چاہتے تھے۔ (۲-کرنتھیوں ۸:۱۴) جتنا کھانا اُٹھا سکتے تھے ہم نے اسے باندھ لیا۔ پھر ہم نے ۵۰۰ کلومیٹر [۳۰۰ میل] کا سفر طے کرکے اسے شہر براتسلاوا کے بہنبھائیوں تک پہنچا دیا۔ اسطرح ہم ان بہنبھائیوں کے بہت قریب ہو گئے۔ آنے والے کٹھن دور کو برداشت کرنے میں ایسی دوستیاں ہمارے لئے انمول ثابت ہوئیں۔
حوصلہافزائی
دوسری عالمی جنگ کے بعد ہمارا علاقہ دوبارہ چیکوسلواکیہ کی حکومت کے اختیار میں آ گیا۔ سن ۱۹۴۶ سے لے کر ۱۹۴۸ تک یہوواہ کے اعمال ۱۶:۲۵۔
گواہوں نے ہر سال چیکوسلواکیہ میں ایک بڑا کنونشن منعقد کِیا۔ ہمارے علاقے کے بھائیوں نے ان کنونشنوں پر حاضر ہونے کیلئے ریلگاڑیوں کا خاص انتظام کِیا۔ یہ ریلگاڑیاں بہنبھائیوں سے کھچاکھچ بھری ہوئی تھیں۔ ہم پورے سفر کے دوران خدا کی حمد میں گیت گایا کرتے تھے۔—مجھے ۱۹۴۷ کا کنونشن آج بھی اچھی طرح یاد ہے جس کیلئے بھائی ناتھن نار خاسکر امریکا سے آئے تھے۔ عوامی تقریر کا اعلان کرنے کیلئے ہم نے سینے اور پیٹھ پر اشتہار لگا لئے۔ پھر ہم نے قطار باندھ لی اور شہر کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک چل دئے۔ اُس وقت میرا بیٹا ایڈوارڈ ۹ سال کا تھا۔ اُسے کوئی اشتہار نہیں ملا تھا جس وجہ سے وہ بہت مایوس ہوا۔ اسلئے ہم نے بچوں کیلئے اُنکے قد کے مطابق چھوٹے اشتہار بنا لئے۔ اسطرح بچے بھی عوامی تقریر کا اعلان کرنے میں حصہ لے سکے۔
فروری ۱۹۴۸ میں کمیونسٹوں نے حکومت سنبھال لی۔ ہم جانتے تھے کہ یہ حکومت ہمارے کام پر ضرور پابندیاں عائد کریگی۔ ستمبر ۱۹۴۸ کے کنونشن پر ہم کافی پریشان تھے کیونکہ ہمیں معلوم تھا کہ ہم آنے والے وقت میں اسطرح آزادی سے جمع نہ ہو سکیں گے۔ کنونشن کے آخری دن پر ایک قرارداد پیش کی گئی جس میں یوں بیان کِیا گیا: ”ہم نے یہوواہ کے گواہوں کے طور پر یہ فیصلہ کِیا ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو ہم اپنی خدمتگزاری جاری رکھینگے بلکہ خداوند کے زور میں اس میں بڑھچڑھ کر حصہ لینگے۔“
”غدار“
اس کنونشن کے دو مہینے بعد خفیہ پولیس نے ہمارے برانچ دفتر پر چھاپا مارا۔ اُنہوں نے عمارت پر قبضہ کرکے تمام کتابیں اور رسالے ضبط کر لئے۔ اسکے علاوہ جتنے بھی بہنبھائی وہاں موجود تھے اُنہیں گرفتار کر لیا گیا۔ لیکن یہ اذیت کا محض آغاز تھا۔
فروری ۳، ۱۹۵۲ کی رات خفیہ پولیس نے پورے مُلک میں ۱۰۰ سے زیادہ یہوواہ کے گواہوں کو گرفتار کِیا جن میں مَیں بھی شامل تھا۔ صبح تین بجے اچانک کسی نے ہمارے دروازے پر زور سے دستک دی۔ خفیہ پولیس نے اندر آ کر میری آنکھوں پر پٹی باندھی اور مجھے ہتھکڑیاں پہنا دیں۔ کچھ اَور بھائیوں سمیت مجھے ایک ٹرک پر لاد کر قیدخانہ پہنچایا گیا۔ وہاں مجھے قیدِتنہائی میں رکھا گیا۔
پورے مہینے تک کسی نے میرے ساتھ بات نہیں کی۔ سپاہی مجھے ایک لفظ کہے بغیر کھانا دے جاتا۔ پھر میری وہ پوچھگچھ شروع ہو گئی جسکا مَیں ذکر کر چکا ہوں۔ خفیہ پولیس کا افسر مجھے جاسوس قرار دینے کے بعد چلانے لگا: ”مذہب جاہلوں کی خوراک ہے۔ خدا کا کوئی وجود نہیں۔ ہم قطعی اس بات کو گوارا نہ کرینگے کہ تُم اس مُلک کے باشندوں کو دھوکا دو۔ یا تو ہم تمہیں پھانسی کے بھینٹ چڑھا دینگے یا پھر تُم اس قیدخانے میں سڑ کر مر جاؤ گے۔ اگر تمہارا خدا یہاں اپنا چہرہ بھی دکھائے تو ہم اسے مار دینگے۔“
حکومت جانتی تھی کہ یہوواہ کے گواہوں نے کوئی ایسا جُرم نہیں کِیا تھا جسکی وجہ سے اُن پر پابندیاں لگائی جائیں۔ اسلئے وہ ہمیں جاسوس اور مُلک کے دُشمن کے طور پر ثابت کرنے کی کوشش میں تھے۔ وہ ہمیں ایسے کاغذات پیش کرتے جن پر ہمارے خلاف جھوٹے الزامات درج تھے۔ وہ ہمیں ان کاغذات پر دستخط کرنے پر مجبور کرنا چاہتے تھے۔ پوچھگچھ کے بعد مجھے سونے نہیں دیا گیا۔ کچھ گھنٹوں کے بعد دوبارہ سے میری پوچھگچھ شروع ہو گئی۔ اس مرتبہ افسر مجھ سے ایک کاغذ پر دستخط کرانا چاہتا تھا جس پر یوں لکھا تھا: ”مَیں نے سرکاری فارم پر کام کرنے سے انکار کر دیا ہے
کیونکہ مَیں کمیونسٹ حکومت کا دُشمن ہوں اور امریکا کا دوست۔“ مَیں نے اس کاغذ پر دستخط کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ اسلئے مجھے واپس قیدخانے میں بھیج دیا گیا۔مجھے بیٹھنے، لیٹنے اور سونے سے روکا گیا۔ مَیں صرف کھڑا رہ سکتا تھا یا پھر اِدھراُدھر چل سکتا تھا۔ جب مَیں تھکاوٹ کی وجہ سے فرش پر لیٹنے لگا تو سپاہی مجھے اسی کمرے میں لے گئے جہاں میری پوچھگچھ ہوئی تھی۔ افسر نے مجھ سے پوچھا: ”کیا تُم اب دستخط کرنے کو تیار ہو؟“ میرے انکار پر اُس نے مجھے تھپڑ مارا۔ میرے مُنہ سے خون بہنے لگا۔ پھر اس نے سپاہیوں سے کہا: ”یہ خودکشی کرنے کے خطرے میں ہے۔ اسکی خاص نگرانی کرو۔“ مجھے دوبارہ قیدِتنہائی میں رکھ دیا گیا۔ یہ سلسلہ ۶ مہینوں تک جاری رہا۔ اس اذیت کے باوجود مَیں یہوواہ خدا کا وفادار رہا۔
اس قیدخانے میں کُل ۱۲ بھائی قید تھے۔ ہمارے مقدمے کے ایک ماہ پہلے سرکاری وکیل ہماری پوچھگچھ کرنے آیا۔ اُس نے مجھ سے پوچھا: ”فرض کرو کہ مغربی ممالک ہمارے وطن پر حملہ کریں تو تُم کیا کرو گے؟“ مَیں نے جواب دیا: ”مَیں وہی کرونگا جو مَیں نے تب کِیا تھا جب ہٹلر نے سوویت یونین پر حملہ کِیا تھا۔ مَیں نے اُس وقت سوویتوں کے خلاف جنگ میں حصہ نہیں لیا اور مَیں اب بھی کسی کے خلاف ایسا کرنے کو تیار نہیں ہوں۔ مَیں ایک مسیحی ہوں اور کسی کی طرفداری نہیں کرتا۔“ اس پر افسر نے مجھ سے کہا: ”جب مغربی ممالک ہم پر حملہ کرینگے تو ہمیں فوجی سپاہیوں کی ضرورت ہوگی۔ ہمیں مغرب کے مزدوروں کو نجات دلانی ہے۔ لہٰذا ہم یہوواہ کے گواہوں کے اس انکار کی اجازت نہیں دے سکتے۔“
ہمارا مقدمہ جولائی ۲۴، ۱۹۵۳ کو شروع ہوا۔ ہم نے اس موقعے پر اپنے ایمان کے بارے میں خوب گواہی دی۔ ہم پر بہت سے جھوٹے الزام لگائے گئے۔ لیکن ہم نے ان سب کا اچھی طرح سے جواب دیا۔ اس پر ایک وکیل نے کہا: ”مَیں اکثر اس کمرۂعدالت میں حاضر ہوتا ہوں۔ زیادہتر ملزم رو رو کر معافی مانگتے ہیں۔ لیکن یہ آدمی جب یہاں سے فارغ ہونگے تو انکا ایمان پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہوگا۔“ عدالت نے ہم سب کو غدار ہونے کا قصوروار ٹھہرایا۔ مجھے تین سال کی قید سنائی گئی اور حکومت نے میری تمامتر جائداد کو ضبط کر لیا۔
بڑھاپے میں بھی سرگرم
قید سے گھر واپس لوٹنے کے بعد بھی خفیہ پولیس میری نگرانی کرتی رہی۔ اسکے باوجود مَیں کلیسیا کی کارگزاریوں میں بڑھچڑھ کر حصہ لیتا رہا اور مجھے طرح طرح کی ذمہداریاں سونپی گئیں۔ حالانکہ حکومت نے ہمارے گھر کو ضبط کر لیا تھا ہمیں اس میں رہنے کی اجازت دی گئی۔ جب ۴۰ سال بعد کمیونسٹ حکومت کا دَور ختم ہوا تو یہ گھر دوبارہ میرے نام ہو گیا۔
میرے قید سے رِہا ہوئے تین سال بھی نہیں گزرے کہ میرے بیٹے ایڈوارڈ نے بھی فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کِیا۔ اس وجہ سے اُسے قید کر دیا گیا۔ اسکے کچھ سال بعد میرے پوتے کو بھی اسی تجربے سے گزرنا پڑا۔ حالانکہ اسکی صحت اچھی نہ تھی اُسے بھی قید بھگتنی پڑی۔
سن ۱۹۸۹ میں چیکوسلواکیہ کمیونسٹ حکومت کے گرفت سے آزاد ہو گیا۔ ہم سب بہت خوش تھے کیونکہ آخرکار ہم کھلمکُھلا مُنادی کے کام میں حصہ لے سکتے تھے۔ (اعمال ۲۰:۲۰) جبتک صحت میرا ساتھ دیتی رہی مَیں گھربہگھر مُنادی کے کام میں حصہ لیتا رہا۔ اب مَیں ۹۸ سال کا ہو چکا ہوں اور مَیں بہت کمزور ہوں۔ اسکے باوجود مَیں ہر موقعے پر لوگوں کو خدا کی بادشاہت کے بارے میں بتاتا ہوں۔
جس علاقے میں میرا گاؤں پڑتا ہے وہاں مَیں نے ۱۲ مختلف حکمرانوں کو حکمرانی کرتے دیکھا۔ ان میں شہنشاہ، جابر اور صدر سب شامل تھے۔ اس دوران میرا گاؤں ۵ مختلف ممالک کے قبضے میں آیا۔ ان حکومتوں میں سے ایک بھی لوگوں کے مسائل کو ختم نہیں کر سکی۔ (زبور ۱۴۶:۳، ۴) مَیں یہوواہ کا نہایت شکرگزار ہوں کہ اُس نے مجھے جوانی ہی میں اپنے قریب آنے دیا۔ اسطرح مَیں نے تجربہ کِیا کہ یسوع کی بادشاہت ہر اِنسانی حکومت سے کہیں بہتر ہے۔ نتیجتاً مَیں اُن لوگوں کی طرح مایوس نہیں ہوا جو انسانی حکومتوں پر آس لگاتے ہیں۔ اب مَیں ۷۵ سال سے خدا کی بادشاہت کی مُنادی کرتا آ رہا ہوں۔ اس وجہ سے میری زندگی بامقصد رہی ہے۔ اسکے علاوہ مَیں زمین پر ہمیشہ تک زندگی گزارنے کی شاندار اُمید کو تھامے ہوں۔ کیا زندگی گزارنے کا اس سے بہتر کوئی طریقہ ہو سکتا ہے؟ *
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 14 یہ کتاب یہوواہ کے گواہوں کی شائعکردہ ہے لیکن اب دستیاب نہیں۔
^ پیراگراف 38 افسوس کی بات ہے کہ بھائی میکال ژوبراک اس آپبیتی کے شائع ہونے سے پہلے ہی فوت ہو گئے۔ انہوں نے خدا کی نئی دُنیا میں جیاُٹھائے جانے کی اُمید میں دَم توڑا۔
[صفحہ ۲۶ پر تصویر]
ہماری شادی کے تھوڑے عرصے بعد
[صفحہ ۲۶ پر تصویر]
۱۹۴۰ کے بعد، ایڈوارڈ کیساتھ
[صفحہ ۲۷ پر تصویر]
۱۹۴۷ کی کنونشن کا اعلان کرتے ہوئے