”یہوواہ کی راہیں راست ہیں“
”یہوواہ کی راہیں راست ہیں“
”[یہوواہ] کی راہیں راست ہیں اور صادق اُن میں چلیں گے۔“—ہوسیع ۱۴:۹۔
۱، ۲. عبادت کے سلسلے میں بنیاسرائیل کسطرح بگڑ گئے؟
موسیٰ کے زمانے میں یہوواہ خدا نے بنیاسرائیل کو قوم کے طور پر منتظم کِیا۔ شروع شروع میں تو وہ اُسکی راہوں پر چلے۔ لیکن آٹھویں صدی قبلِمسیح تک وہ نہایت بدچلن ہو گئے تھے۔ یہ بات ہوسیع ۱۰ تا ۱۴ باب سے ظاہر ہوتی ہے۔
۲ اسرائیلی خدا کی عبادت کرنے کا دکھاوا تو کرتے تھے لیکن اُنکے دل اُس سے بہت دُور ہو گئے تھے۔ اسرائیلی سلطنت کے باشندوں نے ”شرارت کا ہل چلایا“ اور اسکے نتیجے میں بدکرداری کی فصل کاٹی۔ (ہوسیع ۱۰:۱، ۱۳) یہوواہ نے کہا: ”جب اؔسرائیل ابھی بچہ ہی تھا مَیں نے اُس سے محبت رکھی اور اپنے بیٹے کو مصر سے بلایا۔“ (ہوسیع ۱۱:۱) حالانکہ یہوواہ نے بنیاسرائیل کو مصر سے نجات دلائی لیکن اسکے بدلے میں اُنہوں نے مکاری کی۔ (ہوسیع ۱۱:۱۲) اسلئے یہوواہ نے اُنکو ہدایت دی کہ ”تُو اپنے خدا کی طرف رُجُوع لا۔ نیکی اور راستی پر قائم اور ہمیشہ اپنے خدا کا اُمیدوار رہ۔“—ہوسیع ۱۲:۶۔
۳. سامریہ کے باشندوں پر کونسی آفت آنے والی تھی اور وہ اس سزا سے کیسے بچ سکتے تھے؟
۳ سامریہ کے باشندے اور اُنکا بادشاہ اپنی بُری روش کا انجام بھگتنے والے تھے۔ (ہوسیع ۱۳:۱۱، ۱۶) لیکن ہوسیع کی کتاب کے آخری باب میں اُنکو ہدایت دی گئی کہ ”اَے اؔسرائیل [یہوواہ] اپنے خدا کی طرف رُجُوع لا۔“ اگر اسرائیلی توبہ کرکے اپنے گُناہوں کی معافی مانگتے تو یہوواہ اُن پر رحم ضرور کرتا۔ ایسا کرنے کیلئے اُنہیں تسلیم کرنا پڑتا کہ ”[یہوواہ] کی راہیں راست ہیں“ اور اُنکو انکے مطابق چلنا بھی پڑتا۔—ہوسیع ۱۴:۱-۶، ۹۔
۴. ہم ہوسیع کی نبوّت میں پائے جانے والے کن اصولوں پر غور کریں گے؟
۴ ہوسیع ۱۰ تا ۱۴ باب میں بہت سے ایسے اصول ہیں جن پر عمل کرنے سے ہم یہوواہ کیساتھ ساتھ چلنے کے قابل ہوں گے۔ آئیے ہم ان میں سے پانچ اصولوں پر غور کرتے ہیں۔ (۱) ہمیں خدا کی عبادت پاک نیت سے اور اُسکے معیاروں کے مطابق کرنی چاہئے۔ (۲) یہوواہ خدا اُن لوگوں کیساتھ شفقت سے پیش آتا ہے جو نیک نیت اور پاک دل سے اُسکی خدمت کرتے ہیں۔ (۳) ہمیں یہوواہ پر اُمید باندھے رکھنی چاہئے۔ (۴) یہوواہ کی راہیں راست ہیں۔ (۵) سنگین گُناہ کرنے والا شخص بھی یہوواہ کی طرف رُجُوع لا سکتا ہے۔
پاک نیت سے خدا کی عبادت کریں
۵. خدا ہم سے کس قسم کی عبادت چاہتا ہے؟
۵ سب سے پہلا اصول یہ ہے کہ ہمیں خدا کی عبادت پاک نیت سے اور اُسکے معیاروں کے مطابق کرنی چاہئے۔ البتہ اسرائیلی قوم ایک ایسی ”لہلہاتی تاک“ [”بگڑی ہوئی تاک،“ این ڈبلیو] کی مانند بن چکی تھی جو بُرائی کا پھل پیدا کر رہی تھی۔ اُنہوں نے بُتوں کی پوجا کرنے کیلئے خاص ستون اور ”بہت سی قربانگاہیں تعمیر کیں۔“ یہوواہ ان قربانگاہوں کو ڈھانے اور ان ستونوں کو توڑنے والا تھا۔—ہوسیع ۱۰:۱، ۲۔
۶. یہوواہ خدا کس قسم کے لوگوں کی عبادت کو ردّ کرتا ہے؟
۶ یہوواہ خدا ایک ریاکار شخص کی عبادت کو قبول نہیں کرتا۔ شروع میں اسرائیلیوں نے یہوواہ کے عہد کو خوشی سے قبول کِیا تھا۔ لیکن ہوسیع کے زمانے تک ”اُنکا دل دغاباز“ بن گیا تھا۔ اسکا مطلب ہے کہ وہ نیک نیت سے خدا کی عبادت نہیں کر رہے تھے۔ ہم اس سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ جس شخص نے خدا کی خدمت کیلئے خود کو وقف کر لیا ہے اُسے ریاکار بننے سے خبردار رہنا چاہئے۔ امثال ۳:۳۲ میں لکھا ہے کہ ”کجرو سے [یہوواہ] کو نفرت ہے لیکن راستباز اُسکے محرمِراز ہیں۔“ لہٰذا خدا کیساتھ ساتھ چلنے کیلئے ہمیں ’پاک دل اور نیکنیت اور بےریا ایمان سے محبت پیدا کرنی چاہئے۔‘—۱-تیمتھیس ۱:۵۔
یہوواہ اپنے خادموں کیساتھ شفقت سے پیش آتا ہے
۷، ۸. (ا) یہوواہ کن لوگوں کیساتھ شفقت سے پیش آتا ہے؟ (ب) اگر ہم سے کوئی سنگین گُناہ ہو جائے تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
۷ ہوسیع کی نبوّت میں سے دوسرا اصول یہ ہے کہ یہوواہ خدا اُن لوگوں کیساتھ شفقت سے پیش آتا ہے جو نیک نیت اور پاک دل سے اُسکی خدمت کرتے ہیں۔ بدکار اسرائیلیوں کو یہ نصیحت دی گئی تھی: ”اپنے لئے صداقت سے تخمریزی کرو۔ شفقت سے فصل کاٹو اور اپنی اُفتادہ زمین میں ہل چلاؤ کیونکہ اب موقع ہے کہ تُم [یہوواہ] کے طالب ہو تاکہ وہ آئے اور راستی کو تُم پر برسائے۔“—ہوسیع ۱۰:۱۲۔
۸ اگر اسرائیل کے باشندے یہوواہ کے طالب ہوتے تو وہ اُن پر ’راستی برساتا‘ یعنی اُنہیں اپنے راست راہوں پر چلنا سکھاتا۔ اسلئے اگر ہم سے کوئی سنگین گُناہ ہو جائے تو ہمیں یہوواہ کے طالب ہونا چاہئے۔ اسکا مطلب ہے کہ ہمیں اُس سے دُعا میں معافی مانگنی چاہئے اور کلیسیا کے بزرگوں سے بھی مدد حاصل کرنی چاہئے۔ (یعقوب ۵:۱۳-۱۶) اسکے علاوہ ہمیں یہوواہ خدا سے اُسکی پاک روح کی درخواست بھی کرنی چاہئے کیونکہ ”جو کوئی اپنے جسم کیلئے بوتا ہے وہ جسم سے ہلاکت کی فصل کاٹے گا اور جو روح کیلئے بوتا ہے وہ روح سے ہمیشہ کی زندگی کی فصل کاٹے گا۔“ (گلتیوں ۶:۸) یہوواہ کی شفقت اُن لوگوں پر رہتی ہے جو ’روح کیلئے بوتے ہیں۔‘
۹، ۱۰. ہوسیع ۱۱:۱-۴ میں اسرائیل کیلئے یہوواہ کے احساسات کیسے ظاہر ہوتے ہیں؟
۹ ہم یقین کر سکتے ہیں کہ یہوواہ اپنے خادموں کیساتھ ہمیشہ شفقت سے پیش آتا ہے۔ یہ بات ہوسیع ۱۱:۱-۴ سے صاف ظاہر ہوتی ہے، جہاں ہم یوں پڑھتے ہیں: ”جب اؔسرائیل ابھی بچہ ہی تھا مَیں نے اُس سے محبت رکھی اور اپنے بیٹے کو مصر سے بلایا۔ . . . اُنہوں نے بعلیم کیلئے قربانیاں گذرانیں اور تراشی ہوئی مورتوں کیلئے بخور جلایا۔ مَیں نے بنیافرائیم [یعنی بنیاسرائیل] کو چلنا سکھایا۔ مَیں نے اُنکو گود میں اُٹھایا لیکن اُنہوں نے نہ جانا کہ مَیں ہی نے اُنکو صحت بخشی۔ مَیں نے اُنکو انسانی رشتوں اور محبت کی ڈوریوں سے کھینچا۔ مَیں اُنکے حق میں اُنکی گردن پر سے جؤا اُتارنے والوں کی مانند ہوا اور مَیں نے اُنکے آگے کھانا رکھا۔“
۱۰ اسرائیل کی قوم یہوواہ خدا کی نظر میں ایک چھوٹے بچے کی مانند تھی جسے اُس نے بڑے پیار سے گود میں اُٹھایا اور چلنا سکھایا تھا۔ یہوواہ اُسکو ”محبت کی ڈوریوں“ سے اپنی طرف کھینچتا۔ واقعی یہوواہ نے ایک شفیق باپ کی مانند اسرائیل کی پرورش کی تھی۔ یہوواہ کے احساسات اُس ماں یا باپ کی طرح ہیں جو اپنے بچے کو چلنا سکھاتا ہے۔ والدین بانھیں پھیلا کر بچے کو پکارتے ہیں۔ اور شاید وہ بچے کو ایک ڈور بھی پکڑائیں جسکی مدد سے وہ اُنکی طرف چل پڑتا ہے۔ اسی طرح یہوواہ خدا بھی آپکو ”محبت کی ڈوریوں“ سے اپنی راہوں پر چلنا سکھاتا ہے۔
۱۱. یہوواہ کس لحاظ میں اسرائیلیوں کی ’گردن پر سے جؤا اُتارنے والا‘ بنا؟
۱۱ یہوواہ اسرائیلیوں کی ’گردن پر سے جؤا اُتارنے والوں کی مانند ہوا اور اُس نے اُنکے آگے کھانا بھی رکھا۔‘ جب ایک جانور کی گردن سے جؤا اُتارا جاتا ہے تو اُسے چرنے میں آسانی رہتی ہے۔ اسی طرح یہوواہ نے اسرائیلیوں کی مشکل بھی آسان کر دی تھی۔ لیکن جب اسرائیلی یہوواہ کی عبادت کے جوئے کو اُتار پھینکتے تو وہ اپنے دُشمنوں کے ظالمانہ جوئے تلے دب جاتے۔ (استثنا ۲۸:۴۵، ۴۸؛ یرمیاہ ۲۸:۱۴) دُعا ہے کہ ہم اپنے دُشمن شیطان کے ظالمانہ جوئے میں جُتنے سے بچے رہیں اور ہمیشہ تک اپنے شفیق خدا یہوواہ کیساتھ ساتھ چلتے رہیں۔
یہوواہ پر اُمید باندھے رکھیں
۱۲. ہوسیع ۱۲:۶ کے مطابق ہمیں خدا کیساتھ ساتھ چلتے رہنے کیلئے کیا کرنا چاہئے؟
۱۲ ہوسیع کے آخری پانچ باب میں سے تیسرا اصول یہ ہے کہ یہوواہ کیساتھ ساتھ چلنے کے لئے ہمیں ہمیشہ اُس پر اُمید رکھنی چاہئے۔ اسرائیلیوں کو بتایا گیا تھا کہ ”تُو اپنے خدا کی طرف رُجُوع لا۔ نیکی اور راستی پر قائم اور ہمیشہ اپنے خدا کا اُمیدوار رہ۔“ (ہوسیع ۱۲:۶) اسرائیلی نیکی کرنے، راستی پر قائم رہنے اور ’خدا کے اُمیدوار رہنے‘ سے ظاہر کر سکتے تھے کہ وہ واقعی توبہ کرکے رُجُوع لا چکے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہم کافی عرصے سے خدا کیساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ اسکے باوجود ہمیں پکا ارادہ کر لینا چاہئے کہ ہم آئندہ بھی نیکی کریں گے، اپنی راستی پر قائم رہیں گے اور خدا پر آس رکھیں گے۔—زبور ۲۷:۱۴۔
۱۳، ۱۴. پولس رسول نے ہوسیع ۱۳:۱۴ کی وضاحت کیسے کی؟ اور اسکی بِنا پر ہم کونسی اُمید باندھ سکتے ہیں؟
۱۳ اپنے نبی ہوسیع کے ذریعے یہوواہ نے کہا: ”مَیں اُنکو پاتال کے قابو سے نجات دُونگا مَیں اُنکو موت سے چھڑاؤں گا۔ اَے موت تیری وبا کہاں ہے؟ اَے پاتال تیری ہلاکت کہاں ہے؟“ (ہوسیع ۱۳:۱۴) اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہوواہ اُس وقت اسرائیلیوں کو موت سے چھڑانے والا تھا۔ لیکن مستقبل میں یہوواہ خدا موت کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دے گا۔ یہ کتنی ہی شاندار اُمید ہے!
۱۴ پولس رسول نے ممسوح مسیحیوں کو خط لکھتے ہوئے ہوسیع ۱۳:۱۴ کا حوالہ دیا۔ اُس نے لکھا: ”جب یہ فانی جسم بقا کا جامہ پہن چکے گا اور یہ مرنے والا جسم حیاتِابدی کا جامہ پہن چکے گا تو وہ قول پورا ہوگا جو لکھا ہے کہ موت فتح کا لقمہ ہو گئی۔ اَے موت! تیری فتح کہاں رہی؟ اَے موت تیرا ڈنک کہاں رہا؟ موت کا ڈنک گُناہ ہے اور گُناہ کا زور شریعت ہے۔ مگر خدا کا شکر ہے جو ہمارے خداوند یسوؔع مسیح کے وسیلہ سے ہم کو فتح بخشتا ہے۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۵۴-۵۷) یہوواہ خدا نے یسوع مسیح کو موت سے جی اُٹھایا تھا۔ ایسا کرنے سے اُس نے ثبوت فراہم کِیا کہ وہ مستقبل میں بھی مُردہ لوگوں کو زندہ کرے گا۔ (یوحنا ۵:۲۸، ۲۹) کیا یہ اُمید آپکے دل کو چھو نہیں لیتی؟ اس اُمید کے علاوہ ایک اَور بات بھی ہمارے دل میں خدا کے ساتھ ساتھ چلنے کی خواہش بڑھاتی ہے۔
یہوواہ کی راہیں راست ہیں
۱۵، ۱۶. سامریہ کے بارے میں ہوسیع نے کونسی پیشینگوئی کی تھی اور یہ کیسے تکمیل پائی؟
۱۵ خدا کیساتھ ساتھ چلنے کے سلسلے میں ہوسیع کی کتاب میں دیا گیا چوتھا اصول یہ ہے: ’یہوواہ کی راہیں راست ہیں۔‘ سامریہ کے باشندوں نے یہوواہ کی راہوں پر چلنا چھوڑ دیا تھا۔ اُنکو اپنے گُناہوں کیلئے کڑی سزا بھگتنی تھی۔ ہوسیع نے پیشینگوئی کی کہ ”ساؔمریہ اپنے جُرم کی سزا پائے گا کیونکہ اُس نے اپنے خدا سے بغاوت کی ہے۔ وہ تلوار سے گِر جائیں گے۔ اُنکے بچے پارہ پارہ ہوں گے اور باردار عورتوں کے پیٹ چاک کئے جائیں گے۔“ (ہوسیع ۱۳:۱۶) تاریخ ظاہر کرتی ہے کہ سامریوں پر قبضہ کرنے والے اسُوری لشکر واقعی اپنے دُشمنوں کیساتھ ایسا ظالمانہ سلوک کِیا کرتے تھے۔
۱۶ دراصل سامریہ اسرائیل کے دس قبیلوں کی سلطنت کا دارالحکومت تھا۔ لیکن اکثر اس سلطنت کے پورے علاقے کو سامریہ کا نام دیا جاتا تھا۔ (۱-سلاطین ۲۱:۱) سن ۷۴۲ قبلِمسیح میں اسور کے بادشاہ سلمنسر پنجم نے شہر سامریہ پر چڑھائی کرکے اسے گھیرے میں لے لیا۔ آخرکار سن ۷۴۰ قبلِمسیح میں اسُوریوں نے اِس شہر پر قبضہ جما لیا اور اس کے باشندوں کو مسوپتامیہ اور مادی میں اسیر کر دیا۔ بعض تاریخدان کہتے ہیں کہ سامریہ پر سلمنسر نے قبضہ کِیا تھا جبکہ دوسروں کا کہنا ہے کہ یہ فتح اس کے بعد آنے والے بادشاہ سرجُون دوم کی تھی۔ (۲-سلاطین ۱۷:۱-۶، ۲۲، ۲۳؛ ۱۸:۹-۱۲) بہرحال بادشاہ سرجُون نے اپنے دستاویزات میں دعویٰ کِیا تھا کہ اُس نے ۲۹۰،۲۷ اسرائیلیوں کو دریائےفرات اور مادی کے علاقے میں اسیر کر دیا تھا۔
۱۷. خدا کے اصولوں کو نظرانداز کرنے کی بجائے مسیحیوں کو کیا کرنا چاہئے؟
۱۷ یہوواہ کی راہوں سے بھٹکنے کی وجہ سے سامریہ کے باشندوں پر آفت نازل ہوئی۔ اسی طرح اگر سچے مسیحی گنہگارانہ روش اختیار کرکے خدا کے اصولوں کو نظرانداز کرنے لگیں تو اُنکو بھی سزا بھگتنی پڑے گی۔ دُعا ہے کہ ہم کبھی ایسی روش میں نہ پڑیں۔ اسکی بجائے ہمیں پولس رسول کی اس نصیحت پر عمل کرنا چاہئے: ”تُم میں سے کوئی شخص خونی یا چور یا بدکار یا اَوروں کے کام میں دست انداز ہو کر دُکھ نہ پائے۔ لیکن اگر مسیحی ہونے کے باعث کوئی شخص دُکھ پائے تو شرمائے نہیں بلکہ اِس نام کے سبب سے خدا کی تمجید کرے۔“—۱-پطرس ۴:۱۵، ۱۶۔
۱۸. ہم ”خدا کی تمجید“ کیسے کر سکتے ہیں؟
۱۸ اپنی منمانی کرنے کی بجائے، خدا کی راہوں پر چلنے سے ہم اُسکی ”تمجید“ کر سکتے ہیں۔ قائن نے اپنی منمانی کرتے ہوئے یہوواہ کی آگاہی پر کان نہیں لگایا۔ اسلئے وہ قتل جیسا سنگین گُناہ کرنے پر اُتر آیا۔ (پیدایش ۴:۱-۸) بلعام نے لالچ میں پڑ کر موآب کے بادشاہ سے رشوت لی اور خدا کی قوم پر لعنت لانے کی کوشش کی۔ (گنتی ۲۴:۱۰) جب قورح اور اُسکے ساتھیوں نے موسیٰ اور ہارون کے خلاف بغاوت کی تو یہوواہ نے اُنکو اس گستاخی کیلئے مار ڈالا۔ (گنتی ۱۶:۱-۳، ۳۱-۳۳) ہم ”قائن کی راہ پر“ نہیں چلنا چاہتے۔ ہم ”بلعاؔم کی سی گمراہی“ اختیار نہیں کرنا چاہتے اور نہ ہی ”قورح کی طرح مخالفت“ کرنا چاہتے ہیں۔ (یہوداہ ۱۱) البتہ اگر ہم سے گُناہ ہو جائے تو ہم ہوسیع کی کتاب سے تسلی پا سکتے ہیں۔
گنہگار شخص یہوواہ کی طرف رُجُوع لا سکتا ہے
۱۹، ۲۰. تائب اسرائیلی یہوواہ کیلئے کس قسم کی قربانیاں چڑھا سکتے تھے؟
۱۹ ہوسیع کی کتاب میں پایا جانے والا پانچواں اصول یہ ہے: سنگین گُناہ کرنے والا شخص بھی یہوواہ کی طرف رُجُوع لا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ہوسیع ۱۴:۱، ۲ میں لکھا ہے: ”اَے اؔسرائیل [یہوواہ] اپنے خدا کی طرف رُجُوع لا کیونکہ تُو اپنی بدکرداری کے سبب سے گِر گیا ہے۔ کلام لے کر [یہوواہ] کی طرف رُجُوع لاؤ اور کہو ہماری تمام بدکرداری کو دُور کر اور فضل سے ہم کو قبول فرما۔ تب ہم اپنے لبوں سے قربانیاں گذرانینگے۔“
۲۰ تائب اسرائیلی یہوواہ کیلئے ”اپنے لبوں سے قربانیاں“ گزران سکتے تھے۔ اسکا مطلب ہے کہ وہ پورے دل سے یہوواہ کی حمد کر سکتے تھے۔ پولس رسول نے اس پیشینگوئی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسیحیوں سے کہا: ”ہم اُسکے وسیلہ سے حمد کی قربانی یعنی ان ہونٹوں کا پھل جو اُسکے نام کا اقرار کرتے ہیں خدا کیلئے ہر وقت چڑھایا کریں۔“ (عبرانیوں ۱۳:۱۵) یہ کتنا بڑا شرف ہے کہ ہم یہوواہ کیساتھ ساتھ چلتے ہوئے اُسکے نام میں حمد کی قربانیاں گزران سکتے ہیں۔
۲۱، ۲۲. خدا نے تائب اسرائیلیوں سے کیا وعدہ کِیا تھا؟
۲۱ ایسے اسرائیلی جو اپنی بُری روش کو چھوڑ کر خدا کی طرف رُجُوع لائے تھے وہ یہوواہ کے لئے ”اپنے لبوں سے قربانیاں“ چڑھانے لگے۔ ایسا کرنے سے وہ روحانی طور پر بحال ہو گئے۔ اُن پر خدا کا یہ وعدہ پورا ہوا: ”مَیں اُن کی برگشتگی کا چارہ کروں گا۔ مَیں کشادہدلی سے اُن سے محبت رکھوں گا کیونکہ میرا قہر اُن پر سے ٹل گیا۔ مَیں اؔسرائیل کے لئے اوس کی مانند ہوں گا۔ وہ سوسن کی طرح پھولے گا اور لبناؔن کی ہوسیع ۱۴:۴-۷۔
طرح اپنی جڑیں پھیلائے گا۔ اُس کی ڈالیاں پھیلیں گی اور اُس میں زتیون کے درخت کی خوبصورتی اور لبناؔن کی سی خوشبو ہوگی۔ اُس کے زیرِسایہ رہنے والے بحال ہو جائیں گے۔ وہ گیہوں کی مانند تروتازہ اور تاک کی مانند شگفتہ ہوں گے۔ اُنکی شہرت لبناؔن کی مے کی سی ہوگی۔“—۲۲ تائب اسرائیلیوں نے اپنی روحانی کمزوری سے شفا پا کر دوبارہ سے خدا کی خوشنودی حاصل کی۔ یہوواہ کی برکت اُن پر اوس کی طرح نازل ہونے لگی۔ خدا کی راہوں پر چلنے سے وہ ”زتیون کے درخت“ کی طرح خوبصورت بن گئے۔ ہم نے بھی خدا کی راہوں پر چلنے کا پکا ارادہ کِیا ہے۔ اس سلسلے میں خدا ہم سے کیا توقعات رکھتا ہے؟
یہوواہ کی راہوں میں چلتے رہیں
۲۳، ۲۴. ہوسیع کی کتاب کس ہدایت پر ختم ہوتی ہے اور اس ہدایت کا ہم پر کیا اثر ہونا چاہئے؟
۲۳ خدا کیساتھ ساتھ چلنے کا مطلب یہی ہے کہ ہم اُسکی ’حکمت جو اوپر سے آتی ہے‘ کو اپناتے رہیں اور اُسکی راہوں میں چلتے رہیں۔ (یعقوب ۳:۱۷، ۱۸) اسلئے ہوسیع کی کتاب اس ہدایت پر ختم ہوتی ہے: ”دانشمند کون ہے کہ وہ یہ باتیں سمجھے اور دُوراندیش کون ہے جو انکو جانے؟ کیونکہ [یہوواہ] کی راہیں راست ہیں اور صادق اُن میں چلیں گے لیکن خطاکار اُن میں گِر پڑیں گے۔“—ہوسیع ۱۴:۹۔
۲۴ اس بُری دُنیا کی سوچ کے مطابق چلنے کی بجائے، آئیے ہم خدا کی راست راہوں میں چلنے کا پکا ارادہ کر لیں۔ (استثنا ۳۲:۴) ہوسیع نبی ۵۹ سال سے زیادہ عرصے تک خدا کیساتھ ساتھ چلتا رہا۔ اس دوران وہ لوگوں کو خدا کے پیغامات پہنچاتا رہا۔ اُسے معلوم تھا کہ جو لوگ دانشمند اور دُوراندیش ہیں وہ اُسکی نبوّت پر ضرور کان لگائیں گے۔ ہوسیع کی طرح ہم بھی لوگوں تک یہوواہ کے پیغامات پہنچاتے رہیں گے۔ ہم ایسے لوگوں کی تلاش میں رہیں گے جو یہوواہ کے پیغام پر کان لگانے کو تیار ہیں۔ ایسا کرتے وقت ہم ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ جماعت کی راہنمائی پر خوشی سے عمل کریں گے۔—متی ۲۴:۴۵-۴۷۔
۲۵. ہوسیع کی نبوّت پر غور کرنے سے ہمیں کیا فائدہ پہنچا ہے؟
۲۵ یہوواہ کیساتھ ساتھ چلنے کیلئے ہوسیع کی نبوّت میں پائے جانے والے سبق اور اصول ہمارے لئے فائدہمند ثابت ہوں گے۔ ان پر عمل کرنے سے ہم نئی زمین پر ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کی اُمید باندھ سکتے ہیں۔ (۲-پطرس ۳:۱۳؛ یہوداہ ۲۰، ۲۱) اسلئے آئیے ہم اپنے چالچلن سے ظاہر کریں کہ ہمیں اس بات کا پورا یقین ہے کہ ”[یہوواہ] کی راہیں راست ہیں۔“
آپ کیا جواب دیں گے؟
• جب ہم خدا کے معیاروں کے مطابق اُسکی عبادت کرتے ہیں تو وہ ہمارے ساتھ کیسے پیش آتا ہے؟
• ہمیں یہوواہ پر اُمید کیوں رکھنی چاہئے؟
• آپ اس بات پر کیوں یقین کرتے ہیں کہ یہوواہ کی راہیں راست ہیں؟
• خدا کی راہوں میں چلتے رہنے کیلئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۲۸ پر تصویر]
مسیحی بزرگوں کی راہنمائی قبول کریں
[صفحہ ۲۹ پر تصویر]
ہوسیع کی نبوّت ہمیں یقین دلاتی ہے کہ مُردے زندہ کئے جائیں گے
[صفحہ ۳۱ پر تصویر]
ہمیشہ کی زندگی کی اُمید باندھ کر خدا کیساتھ ساتھ چلتے رہیں