مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

آپ‌بیتی

یہوواہ خدا پر بھروسا کرنے والوں کی زندگی خوش‌گوار ہوتی ہے

یہوواہ خدا پر بھروسا کرنے والوں کی زندگی خوش‌گوار ہوتی ہے

زندگی میں اُتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں۔‏ کبھی‌کبھار تو ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں جن کا سامنا کرنا آسان نہیں ہوتا۔‏ لیکن جو لوگ کٹھن حالات سے نپٹنے کے لئے اپنی عقل کی بجائے یہوواہ خدا پر بھروسا کرتے ہیں،‏ یہوواہ اُن کی مدد کرتا ہے۔‏ یہ ہماری زندگی کا نچوڑ ہے۔‏ آئیں،‏ ہم آپ کو اپنی زندگی کے طویل مگر خوش‌گوار سفر کے بارے میں کچھ بتاتے ہیں۔‏

میرے امی‌ابو کی ملاقات ۱۹۱۹ء میں بائبل سٹوڈنٹس کے اِجتماع پر ہوئی جو ریاستہائےمتحدہ میں سیڈر پوائنٹ،‏ اوہائیو میں منعقد ہوا تھا۔‏ اُسی سال اُنہوں نے شادی کر لی۔‏ مَیں ۱۹۲۲ء میں پیدا ہوا اور میرے دو سال بعد میرا بھائی پال پیدا ہوا۔‏ میری بیوی گریس کی پیدائش ۱۹۳۰ء میں ہوئی۔‏ اُس کے امی‌ابو بائبل سٹوڈنٹس تھے۔‏ اُس کے نانا نانی بھی بائبل سٹوڈنٹس تھے اور بھائی چارلس ٹیز رسل کے دوست تھے۔‏

میری اور گریس کی ملاقات ۱۹۴۷ء میں ہوئی اور ہم نے ۱۶ جولائی ۱۹۴۹ء میں شادی کر لی۔‏ شادی کرنے سے پہلے ہم نے اپنے مستقبل کے بارے میں بڑی کُھل کر بات کی۔‏ ہم نے یہ فیصلہ کِیا کہ ہم بچے پیدا نہیں کریں گے بلکہ کُل‌وقتی خدمت کریں گے۔‏ یکم اکتوبر ۱۹۵۰ء کو ہم پہل‌کاروں کے طور پر خدمت کرنے لگے۔‏ پھر ۱۹۵۲ء میں مجھے حلقے کے نگہبان کے طور پر خدمت کرنے کی ذمےداری دی گئی۔‏

ایک نئی ذمےداری اور گلئیڈ سکول سے تربیت

یہ بھاری ذمےداری نبھانے کے لئے ہم دونوں کو مدد کی ضرورت تھی۔‏ مَیں نے تجربہ‌کار بھائیوں سے بہت کچھ سیکھا۔‏ مَیں نے گریس کی مدد کے سلسلے میں بھائی مارون ہولن سے بات کی جن کے ہمارے خاندان کے ساتھ بڑے پُرانے تعلقات تھے۔‏ وہ کئی سال سے حلقے کے نگہبان کے طور پر خدمت کر رہے تھے۔‏ مَیں نے اُن سے کہا:‏ ”‏گریس ابھی جوان ہے اور اُسے کُل‌وقتی خدمت کا کوئی تجربہ نہیں۔‏ کیا آپ کسی ایسے پہل‌کار کو جانتے ہیں جس کے ساتھ کام کرنے سے گریس کو کچھ تربیت مل جائے۔‏“‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏ہاں،‏ بہن ایڈنا ونکل ایک تجربہ‌کار پہل‌کار ہیں اور وہ اِس سلسلے میں گریس کی کافی مدد کر سکتی ہیں۔‏“‏ کچھ عرصے بعد گریس نے ایڈنا کے بارے میں کہا:‏ ”‏ایڈنا نے مجھے دوسروں کے ساتھ اِعتماد سے بات کرنا سکھایا۔‏ اُنہوں نے مجھے سمجھایا کہ دوسروں کے اِعتراضات کا سمجھ‌داری سے جواب کیسے دینا چاہئے۔‏ اُنہوں نے مجھے یہ بھی بتایا کہ لوگوں کی باتوں کو دھیان سے سننا ضروری ہے تاکہ مَیں اُنہیں مناسب جواب دے سکوں۔‏ اُن سے تربیت حاصل کرکے مَیں اپنی نئی ذمےداری اُٹھانے کے لئے تیار ہو گئی۔‏“‏

بائیں طرف سے:‏ ناتھن نار،‏ مالکم ایلن،‏ فریڈ رسک،‏ لائل رش،‏ اینڈریو وینگر

ہمیں امریکہ کی ریاست آئیوا میں دو حلقوں میں خدمت کرنے کی ذمےداری دی گئی۔‏ اِس کے علاوہ ہمیں ریاست منسوٹا اور جنوبی ڈکوٹا کے کچھ حلقوں کا دورہ کرنے کے لئے بھی کہا گیا۔‏ اِس کے بعد ہمیں شہر نیویارک میں حلقہ نمبر ۱ میں بھیج دیا گیا۔‏ اِس حلقے میں دو ضلعے شامل تھے جن کا نام بروکلن اور کوینز ہے۔‏ مجھے آج بھی یاد ہے کہ ہمیں اِس حلقے میں خدمت کرنا بہت مشکل لگا تھا کیونکہ اِس حلقے میں بڑے تجربہ‌کار بہن‌بھائی تھے اور ہمیں محسوس ہوا کہ بھلا ہم اِن کو کیا سکھا سکتے ہیں۔‏ اِس حلقے میں بروکلن ہائٹس کلیسیا بھی تھی۔‏ اِس کلیسیا کے اِجلاس جس ہال میں منعقد ہوتے تھے،‏ وہ بیت‌ایل کے ساتھ ہی تھا اور اِس میں بیت‌ایل کے بہت ہی تجربہ‌کار رُکن تھے۔‏ جب مَیں نے یہاں اپنی پہلی تقریر دی تو بھائی ناتھن نار میرے پاس آئے اور بولے:‏ ”‏مالکم آپ نے ہمیں بہت اچھے مشورے دئے ہیں جن پر ہمیں عمل کرنے کی ضرورت ہے۔‏ یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ اگر آپ ہمیں ضروری مشورے نہیں دیں گے تو آپ کے دورے کا کوئی فائدہ نہیں۔‏ اِسی جذبے کے ساتھ خدمت کرتے رہیں۔‏“‏ اِجلاس کے بعد مَیں نے گریس کو یہ بات بتائی۔‏ پھر ہم دونوں اپنے کمرے میں چلے گئے جو بیت‌ایل میں ہی تھا۔‏ گھبراہٹ اور تھکاوٹ سے ہمارا اِتنا بُرا حال تھا کہ ہم رونے لگے۔‏

‏”‏اگر آپ ہمیں ضروری مشورے نہیں دیں گے تو آپ کے دورے کا کوئی فائدہ نہیں۔‏ اِسی جذبے کے ساتھ خدمت کرتے رہیں۔‏“‏

کچھ مہینے بعد ہمیں ایک خط ملا جس میں ہمیں گلئیڈ سکول کی ۲۴ویں کلاس میں آنے کی دعوت دی گئی۔‏ یہ کورس فروری ۱۹۵۵ء میں مکمل ہوا۔‏ ہمیں پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ یہ تربیت دینے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ہمیں مشنری بنایا جائے گا۔‏ اِس کی بجائے ہمیں یہ تربیت اِس لئے دی جا رہی تھی تاکہ ہم اپنے کام کو اَور اچھی طرح انجام دے سکیں۔‏ اِس سکول سے تربیت پانا ہمارے لئے بڑے اعزاز کی بات تھی۔‏ وہاں ہم نے بہت سی ایسی باتیں سیکھیں جو ہم پہلے جانتے تک نہیں تھے۔‏

اُوپر:‏ سن ۱۹۵۴ء میں گلئیڈ سکول کے دوران فرن اور جارج کاؤچ کے ساتھ ہماری تصویر

جب گلئیڈ سکول میں ہماری تربیت مکمل ہو گئی تو مجھے صوبائی نگہبان کے طور پر مقرر کِیا گیا۔‏ ہمیں انڈیانا،‏ مشی‌گن اور اوہائیو کی ریاستوں میں خدمت کرنے کی ذمےداری دی گئی۔‏ دسمبر ۱۹۵۵ء میں جب ہمیں بھائی نار کی طرف سے ایک خط ملا تو ہمیں بڑی حیرت ہوئی۔‏ اُس خط میں اُنہوں نے لکھا تھا:‏ ”‏مَیں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ بیت‌ایل میں خدمت کرنا اور یہاں رہنا چاہیں گے .‏ .‏ .‏ یا پھر کچھ دیر بیت‌ایل میں کام کرکے کسی دوسرے ملک جا کر خدمت کرنا چاہیں گے۔‏ اور اگر آپ سفری نگہبان کے طور پر ہی خدمت جاری رکھنا چاہتے ہیں تو بھی مجھے صاف‌صاف بتا دیں۔‏“‏ ہم نے جواب میں لکھا کہ ہمیں جو بھی کہا جائے گا،‏ ہم خوشی سے مانیں گے۔‏ جلدہی ہمیں بیت‌ایل بلا لیا گیا۔‏

بیت‌ایل میں گزارا ہوا یادگار وقت

بیت‌ایل میں ہمارا وقت بہت ہی اچھا گزرا۔‏ مَیں امریکہ کی مختلف کلیسیاؤں میں اور اِجتماعوں پر تقریریں دینے کے لئے جاتا تھا۔‏ اِس کے علاوہ مَیں نے بہت سے جوان بھائیوں کو بھی تربیت دی جنہوں نے آگے چل کر تنظیم میں بڑی بڑی ذمےداریاں سنبھالیں۔‏ کچھ عرصے بعد مجھے بھائی نار کا سکریٹری بنا دیا گیا اور مَیں نے اُس شعبے میں کام کِیا جو پوری دُنیا میں مُنادی کے کام کی نگرانی کرتا ہے۔‏

نیچے:‏ سن ۱۹۵۶ء میں بیت‌ایل میں کام کرتے ہوئے

مَیں نے کچھ سال اُس شعبے میں بھی خدمت کی جو صرف امریکہ میں مُنادی کے کام کی دیکھ‌بھال کرتا ہے۔‏ وہاں مجھے بھائی سلےوان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔‏ وہ کئی سال تک اِس شعبے کے نگہبان رہ چکے تھے۔‏ اُن کے علاوہ اِس شعبے میں اَور بھی بہت سے تجربہ‌کار بھائی تھے جن سے مَیں نے بہت کچھ سیکھا۔‏ اِن میں سے ایک بھائی فریڈ رسک تھے۔‏ مجھے تربیت دینے کی ذمےداری اِنہی کو سونپی گئی تھی۔‏ ایک بار مَیں نے اُن سے پوچھا:‏ ”‏فریڈ جو خط مَیں لکھتا ہوں،‏ آپ اُن میں تبدیلیاں کیوں کرتے ہیں؟‏“‏ وہ تھوڑا مسکرائے اور پھر بولے:‏ ”‏مالکم جب ہم کسی سے بات کرتے ہیں تو ہم کچھ اِضافی الفاظ اِستعمال کرنے سے اپنی بات کی وضاحت کر سکتے ہیں۔‏ لیکن جب ہم کسی کو کوئی خط لکھتے ہیں اور وہ بھی خاص طور پر اِس شعبے کی طرف سے تو پھر ایسا کرنے کی اِتنی گنجائش نہیں ہوتی۔‏ اِس لئے ہمارے خط کو آسان اور واضح ہونا چاہئے۔‏“‏ پھر اُنہوں نے بڑے پیار سے کہا:‏ ”‏دل چھوٹا مت کریں۔‏ آپ بہت اچھا کام کر رہے ہیں اور وقت کے ساتھ‌ساتھ آپ اپنے کام میں اَور اچھے ہو جائیں گے۔‏“‏

گریس نے بھی بیت‌ایل میں مختلف شعبوں میں خدمت کی۔‏ وہ بیت‌ایل کے کمروں کی صفائی‌ستھرائی کرتی تھی اور یہ کام اُسے بہت پسند تھا۔‏ آج بھی جب ہم کچھ بھائیوں سے ملتے ہیں جو جوانی میں ہمارے ساتھ بیت‌ایل میں خدمت کرتے تھے تو وہ گریس سے یہ کہتے ہیں کہ اُنہوں نے اچھی طرح بستر لگانا اور سنوارنا گریس سے ہی سیکھا تھا۔‏ اور اُن کی مائیں اِس بات سے بڑی خوش تھیں۔‏ گریس نے رسالے پیک کرنے والے،‏ خطوں کے جواب دینے والے اور کیسٹوں کی کاپیاں بنانے والے شعبے میں بھی کام کِیا۔‏ مختلف شعبوں میں کام کرنے سے گریس نے سیکھا کہ یہوواہ خدا کی تنظیم میں خدمت کرنا بڑے اعزاز کی بات ہے،‏ چاہے ہمیں جو بھی کام دیا جائے۔‏ گریس کا یہ جذبہ آج بھی قائم ہے۔‏

زندگی کے سفر میں آنے والے نئے موڑ

سن ۱۹۷۵ء میں ہمیں احساس ہونے لگا کہ اب ہمارے بوڑھے ماں‌باپ کو ہماری ضرورت ہے۔‏ ہم بیت‌ایل کو چھوڑنا نہیں چاہتے تھے اور نہ ہی وہاں کام کرنے والے اپنے بہن‌بھائیوں سے بچھڑنا چاہتے تھے کیونکہ ہمیں اپنے کام اور بہن‌بھائیوں سے بہت محبت ہو گئی تھی۔‏ پھر بھی مجھے لگا کہ اب ہمیں اپنے ماں‌باپ کی دیکھ‌بھال کرنی چاہئے۔‏ اِس لئے ہم نے دل پر پتھر رکھ کر بیت‌ایل چھوڑنے کا فیصلہ کِیا۔‏ لیکن ہمارا اِرادہ تھا کہ جیسے ہی ہمارے حالات بہتر ہوں گے،‏ ہم دوبارہ بیت‌ایل میں خدمت کرنے آئیں گے۔‏

مَیں نے گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لئے اِنشورنس ایجنٹ کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا۔‏ مجھے اپنے مینیجر کی وہ بات آج تک نہیں بھولی جو اُس نے مجھے کام سکھاتے وقت کہی تھی۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏اِس کام سے آپ کو تبھی فائدہ ہوگا جب آپ شام کو لوگوں سے ملنے کے لئے وقت نکالیں گے کیونکہ لوگ زیادہ‌تر شام کو ہی گھر پر ہوتے ہیں۔‏ اِس لئے ہر شام کو لوگوں سے ملنا آپ کی کامیابی کی ضمانت ہے۔‏“‏ مَیں نے اُس سے کہا:‏ ”‏آپ کو اِس کام کا بہت تجربہ ہے۔‏ اِس لئے آپ جو کہہ رہے ہیں،‏ وہ سچ ہی ہوگا اور مَیں آپ کی بات کی قدر بھی کرتا ہوں۔‏ لیکن خدا کی عبادت کرنا میری زندگی میں سب سے اہم ہے۔‏ مَیں اپنے کام کی خاطر اپنی عبادت کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔‏ مَیں شام کو لوگوں سے ملنے کے لئے وقت نکالوں گا مگر منگل اور جمعرات کو مَیں ایسا نہیں کر سکتا۔‏ اِن دنوں پر مَیں شام کو عبادت کے لئے جاتا ہوں۔‏“‏ مَیں نے اپنے کام کی خاطر اِجلاسوں پر جانا نہیں چھوڑا۔‏ اِس لئے یہوواہ خدا نے مجھے کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دی۔‏

جب جولائی ۱۹۸۷ء میں میری امی نے وفات پائی تو ہم اُن کے پاس ہی تھے۔‏ اُس وقت ایک نرس نے گریس سے کہا:‏ ”‏سب جانتے ہیں کہ آپ سارا وقت اپنی ساس کے پاس رہیں۔‏ آپ سے جو بن پڑا،‏ آپ نے کِیا۔‏ اب آپ اِطمینان رکھیں۔‏ گھر جائیں اور آرام کریں۔‏“‏

دسمبر ۱۹۸۷ء میں ہم نے بیت‌ایل میں خدمت کرنے کی درخواست دوبارہ ڈالی کیونکہ ہمیں بیت‌ایل سے بڑی محبت تھی۔‏ لیکن کچھ ہی دنوں بعد ہمیں پتہ چلا کہ گریس کو انتڑیوں کا کینسر ہے۔‏ اِس لئے گریس کو آپریشن کرانا پڑا۔‏ آپریشن کے بعد وہ صحت‌یاب ہو گئی۔‏ اِسی عرصے کے دوران ہمیں بیت‌ایل کی طرف سے ایک خط ملا کہ ہم اپنی کلیسیا کے ساتھ خدمت کرنا جاری رکھیں۔‏ ہم نے اِرادہ کر لیا تھا کہ ہم مُنادی کے کام کے لئے اپنا جوش ٹھنڈا نہیں پڑنے دیں گے۔‏

پھر مجھے امریکہ کی ریاست ٹیکساس میں نوکری مل گئی۔‏ ہم نے سوچا کہ وہاں کا موسم قدرے گرم ہے اِس لئے وہاں جانا ہمارے لئے اچھا ہوگا۔‏ اور واقعی وہاں جانے سے ہمیں فائدہ ہوا۔‏ ٹیکساس میں آئے ہوئے ہمیں ۲۵ سال ہو گئے ہیں۔‏ یہاں کے بہن‌بھائیوں نے ہمارا بہت خیال رکھا ہے۔‏ اور ہمیں بھی اُن سے بڑا پیار ہو گیا ہے۔‏

ہماری زندگی کا نچوڑ

گریس کبھی انتڑیوں کے کینسر سے،‏ کبھی گلے کے کینسر سے تو کبھی چھاتی کے کینسر سے دوچار رہتی ہے۔‏ لیکن اُسے اپنی زندگی سے کوئی شکایت نہیں۔‏ وہ ہمیشہ میرا ساتھ دیتی ہے اور میرا احترام کرتی ہے۔‏ لوگ اکثر اُس سے پوچھتے ہیں کہ ”‏آپ کی خوش‌گوار ازدواجی زندگی کا راز کیا ہے؟‏“‏ وہ اُنہیں بتاتی ہے:‏ ”‏ہم دونوں ایک دوسرے کے اچھے دوست ہیں۔‏ ہم ہر روز ایک دوسرے کے ساتھ کُھل کر بات‌چیت کرتے ہیں۔‏ ہم اِکٹھے وقت بیتاتے ہیں۔‏ اور اگر ہماری آپس میں ناراضگی ہو جائے تو ہم صلح کئے بغیر سوتے نہیں۔‏“‏ یہ سچ ہے کہ ہم جانے انجانے میں ایک دوسرے کو ٹھیس پہنچا دیتے ہیں۔‏ لیکن ہم ایک دوسرے کو معاف کر دیتے ہیں اور گڑھے مُردے اُکھاڑنے سے گریز کرتے ہیں۔‏ یہی وجہ ہے کہ ہم ایک خوش‌گوار زندگی گزار رہے ہیں۔‏

‏”‏زندگی میں آنے والے اُتار چڑھاؤ کو قبول کریں اور ہمیشہ یہوواہ خدا پر بھروسا رکھیں۔‏“‏

ہم نے زندگی کے کٹھن حالات سے گزر کر بہت سی اہم باتیں سیکھی ہیں۔‏ ہم نے سیکھا ہے:‏

  1. زندگی میں آنے والے اُتار چڑھاؤ کو قبول کریں اور ہمیشہ یہوواہ خدا پر بھروسا رکھیں۔‏ کبھی بھی اپنی عقل پر بھروسا نہ کریں۔‏—‏امثا ۳:‏۵،‏ ۶؛‏ یرم ۱۷:‏۷‏۔‏

  2. کوئی بھی مسئلہ ہو،‏ خدا کے کلام سے رہنمائی حاصل کریں۔‏ ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہم کوئی بیچ کا راستہ اِختیار نہیں کر سکتے۔‏ یا تو ہم خدا کے فرمانبردار ہیں یا نہیں ہیں۔‏—‏روم ۶:‏۱۶؛‏ عبر ۴:‏۱۲‏۔‏

  3. سب سے اہم بات خدا کی خوشنودی حاصل کرنا ہے۔‏ اپنی زندگی میں خدا کی خدمت کو سب سے اہم مقام دیں نہ کہ دُنیا کی چیزوں کو۔‏—‏امثا ۲۸:‏۲۰؛‏ واعظ ۷:‏۱؛‏ متی ۶:‏۳۳،‏ ۳۴‏۔‏

  4. دُعا میں یہوواہ خدا سے مدد مانگیں تاکہ آپ پوری لگن سے اُس کی خدمت کر سکیں۔‏ اپنے حالات کے مطابق جتنی خدمت آپ کر سکتے ہیں،‏ اُسی پر دھیان دیں۔‏ اور جو آپ کے بس میں نہیں،‏ اُس کے بارے میں سوچ کر پریشان نہ ہوں۔‏—‏متی ۲۲:‏۳۷؛‏ ۲-‏تیم ۴:‏۲‏۔‏

  5. یاد رکھیں کہ پوری دُنیا میں اَور کوئی ایسی تنظیم نہیں جسے یہوواہ خدا کی حمایت اور برکت حاصل ہو۔‏—‏یوح ۶:‏۶۸‏۔‏

مجھے خدا کی خدمت کرتے ہوئے ۷۵ سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے اور گریس کو بھی۔‏ لیکن ہمیں اِکٹھے خدمت کرتے ہوئے تقریباً ۶۵ سال ہو گئے ہیں۔‏ اِن تمام برسوں کے دوران ہمیں یہوواہ خدا کی خدمت کرنے سے بہت خوشی ملی ہے۔‏ ہماری دُعا ہے کہ ہمارے تمام بہن‌بھائی پورے دل‌وجان سے یہوواہ خدا کی خدمت کریں اور آزما کر دیکھیں کہ خدا پر بھروسا کرنے والوں کی زندگی کتنی خوش‌گوار ہوتی ہے۔‏