یہوواہ کی قربت میں آنا میرے لیے بہت فائدہمند ثابت ہوا ہے
آج سے 34 سال پہلے ہم آئیوری کوسٹ میں رہتے تھے۔ اُس وقت مَیں نو سال کی تھی۔ اِتنی چھوٹی عمر میں ہی میرا قد بڑھنا رُک گیا۔ آج بھی میرا قد صرف تین فٹ ہے۔ جب میرے والدین سمجھ گئے کہ اب میرا قد اَور نہیں بڑھے گا تو اُنہوں نے میری حوصلہافزائی کی کہ مَیں خود کو کسی کام میں مصروف رکھوں تاکہ مَیں ہر وقت اپنے قد کے بارے میں سوچتی نہ رہوں۔ اِس لیے مَیں نے اپنے گھر کے سامنے پھلوں کا سٹال لگا لیا۔ مَیں پھلوں کو بڑا سجا کر رکھتی تھی جس کی وجہ سے بہت سے لوگ میرے سٹال پر آتے تھے۔
کام میں مصروف رہنے کے باوجود میرا مسئلہ حل نہیں ہوا۔ چھوٹے قد کی وجہ سے میرے لیے روزمرہ کے کام کرنا بھی مشکل تھا۔ مثال کے طور پر جب مَیں دُکان پر جاتی تو کاؤنٹر پر پیسے دینا مشکل ہوتا تھا کیونکہ وہ بہت اُونچے ہوتے تھے۔ مجھے لگتا تھا کہ سب چیزیں لمبے قد والوں کے لیے ہی بنی ہیں۔ مجھے خود پر بہت ترس آتا تھا لیکن پھر کچھ ایسا ہوا جس کی وجہ سے میری سوچ بدل گئی۔ تب میں 14 سال کی تھی۔
ایک دن دو یہوواہ کی گواہ عورتیں میرے پاس پھل خریدنے آئیں۔ اور پھر اُنہوں نے مجھے بائبل کورس کرانا شروع کِیا۔ جلد ہی مَیں سمجھ گئی کہ اپنے مسئلے کے بارے میں سوچتے رہنے کی بجائے یہوواہ اور اُس کے مقصد کے بارے میں سیکھنا زیادہ بہتر ہوگا۔ یوں میری سوچ میں بہت تبدیلی آئی۔ بائبل کی ایک آیت مجھے خاص طور پر بہت اچھی لگنے لگی۔ یہ زبور 73 کی 28 آیت ہے۔ اِس آیت کے پہلے حصے میں لکھا ہے: ”میرے لئے یہی بھلا ہے کہ خدا کی نزدیکی حاصل کروں۔“
پھر ایک دن میرے گھر والوں نے ملک بُرکینا فاسو منتقل ہونے کا فیصلہ کِیا جس سے میری زندگی بالکل بدل گئی۔ آئیوری کوسٹ میں سب لوگ مجھے پہچانتے تھے کیونکہ مَیں ہر وقت اپنے پھل کے سٹال کے پاس ہی نظر آتی تھی۔ لیکن اِس نئی جگہ پر مجھے کوئی نہیں جانتا تھا اور میرے چھوٹے قد کی وجہ سے لوگ مجھے گھور گھور کر دیکھتے تھے۔ اِس لیے مَیں کئی کئی ہفتے گھر سے نہیں نکلتی تھی۔ پھر مَیں نے اپنا دھیان دوبارہ اِس بات پر لگایا کہ یہوواہ کی قربت حاصل کرنا ہی میرے لیے بھلا ہے۔ مَیں نے یہوواہ کے گواہوں کی مقامی برانچ کو خط لکھا اور اُنہوں نے ایک مشنری کو میرے پاس بھیجا۔ اِس مشنری کا نام نینی تھا اور وہ سکوٹر چلاتی تھیں۔
ہمارے علاقے کے کچے راستے تو ویسے ہی خراب تھے لیکن بارش کے موسم میں تو یہ اَور بھی کیچڑ سے بھر جاتے تھے۔ اِس کی وجہ سے نینی کئی بار پھسل چکی تھیں مگر اِس کے باوجود اُنہوں نے میرے گھر آنا نہ چھوڑا۔ پھر ایک دن اُنہوں نے مجھے اِجلاس پر چلنے کے لیے کہا۔ مَیں سمجھ گئی کہ اِس کے لیے مجھے گھر سے باہر جانا پڑے گا اور لوگ پھر سے مجھے گھوریں گے۔ اِس کے علاوہ اگر سکوٹر پر دو لوگ بیٹھیں گے تو اِس کو چلانا اَور
مشکل ہو جائے گا۔ پھر بھی مَیں اِجلاس پر جانے کے لیے راضی ہو گئی کیونکہ میری پسندیدہ آیت کے دوسرے حصے میں لکھا ہے: ”مَیں نے [یہوواہ] خدا کو اپنی پناہگاہ بنا لیا ہے۔“مَیں اور نینی کئی بار اِجلاسوں پر جاتے وقت کیچڑ میں گِریں۔ لیکن اِجلاسوں پر جانے سے ہمیں جو فائدہ ہوتا تھا، اُس کے سامنے یہ کچھ بھی نہیں۔ راستے میں تو لوگ مجھے عجیب نظروں سے دیکھتے تھے مگر کنگڈم ہال میں بہن بھائی مجھے بڑی پیار بھری نظروں سے دیکھتے تھے۔ نو مہینے کے بعد مَیں نے بپتسمہ لے لیا۔
میری پسندیدہ آیت کے تیسرے حصے میں لکھا ہے: ”تیرے سب کاموں کا بیان کروں۔“ مجھے معلوم تھا کہ مُنادی کا کام کرنا میرے لیے بہت مشکل ہوگا۔ مجھے وہ دن آج بھی یاد ہے جب مَیں پہلی بار گھر گھر مُنادی کرنے گئی تھی۔ بچے اور بڑے مجھے گھور رہے تھے، میرے پیچھے پیچھے آ رہے تھے اور میری چال کی نقل اُتار رہے تھے۔ مجھے اِس سے بہت دُکھ ہوا لیکن مَیں نے یہ بات ذہن میں رکھی کہ جس طرح مجھے نئی دُنیا کی ضرورت ہے اُسی طرح اُنہیں بھی ہے۔ اِس لیے مَیں نے مُنادی میں حصہ لینا جاری رکھا۔
مَیں نے اپنی سہولت کے لیے تین پہیوں والی سائیکل لے لی جو ہاتھ سے چلتی تھی۔ مَیں جس مبشر کے ساتھ کام کرتی تھی وہ چڑھائی چڑھتے وقت سائیکل کو دھکا لگاتا تھا اور اُترائی پر میرے ساتھ اِس پر بیٹھ جاتا تھا۔ شروع شروع میں مُنادی کرنا مشکل تو تھا مگر پھر اِس کام سے مجھے بڑی خوشی ملنے لگی۔ اِس لیے 1998ء میں مَیں نے پہلکار کے طور پر خدمت شروع کر دی۔
مَیں نے بہت سے لوگوں کو بائبل کورس کرایا ہے جن میں سے چار نے بپتسمہ لیا ہے۔ اِس کے علاوہ میری ایک بہن نے بھی سچائی کو قبول کِیا۔ جب کبھی مَیں بےحوصلہ ہوتی ہوں تو مجھے یہ سُن کر بہت حوصلہ ملتا ہے کہ جن لوگوں کو ہم بائبل کورس کرا رہے ہیں، وہ روحانی طور پر آگے بڑھ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک بار مَیں ملیریے کی وجہ سے گھر میں تھی۔ مجھے ایک خط ملا جو آئیوری کوسٹ سے آیا تھا۔ دراصل مَیں نے بُرکینا فاسو میں ایک شخص کو بائبل کورس کرانا شروع کِیا تھا اور پھر اِسے ایک بھائی کو سونپ دیا تھا۔ بعد مَیں وہ شخص آئیوری کوسٹ چلا گیا۔ اور اب اِس خط میں مجھے یہ خبر ملی کہ وہ شخص غیربپتسمہیافتہ مبشر بن گیا ہے۔
اب میرے اخراجات کیسے پورے ہوتے ہیں؟ معذور لوگوں کی مدد کرنے والے ایک اِدارے نے مجھے سلائی کا کام سکھانے کا اِنتظام کِیا۔ میری ٹیچر نے دیکھا کہ مَیں بڑی محنتی ہوں اِس لیے اُس نے مجھ سے کہا: ”ہم تمہیں صابن بنانا سکھائیں گے۔“ اور اُنہوں نے ایسا کِیا بھی۔ اب مَیں کپڑے دھونے اور نہانے والا صابن گھر پر ہی تیار کرتی ہوں۔ میرا بنایا ہوا صابن لوگوں کو بہت اچھا لگتا ہے اور وہ دوسروں کو بھی اِسے اِستعمال کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ جو لوگ صابن کے لیے آرڈر کرتے ہیں، مَیں اپنے تین پہیوں والے سکوٹر پر اُن کے گھر جا کر صابن دے آتی ہوں۔
2004ء میں مجھے ریڑھ کی ہڈی میں شدید درد کی وجہ سے پہلکار کے طور پر خدمت چھوڑنی پڑی۔ لیکن مَیں مُنادی کے کام میں اب بھی بھرپور حصہ لینے کی کوشش کرتی ہوں۔
میرے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی ہے اور یہ میری پہچان بن گئی ہے۔ خوشی میری زندگی کا حصہ بن چکی ہے، اور ہو بھی کیوں نہ؟ آخر خدا کی قربت میرے لیے نہایت فائدہمند ثابت ہوئی ہے۔—سارہ میگا کی زبانی۔