یادوں کے ذخیرے سے
”کسی بھی چیز کو اپنی خدمت میں حائل نہ ہونے دیں“
یہ 1931ء کی بات ہے۔ پیرس کے ایک مشہور تھیٹر میں 23 ملکوں سے لوگ آئے۔ بڑی بڑی ٹیکسیوں سے دلکش کپڑوں میں ملبوس لوگ اُتر رہے تھے۔ جلد ہی تھیٹر تقریباً 3000 لوگوں سے کھچاکھچ بھر گیا۔ یہ لوگ کسی کانسرٹ کے لیے نہیں آئے تھے بلکہ وہ بھائی جوزف رتھرفورڈ کی تقریریں سننے آئے تھے جو اُس وقت مُنادی کے کام کی نگرانی کر رہے تھے۔ اُن کی پُرجوش تقریروں کا ترجمہ فرانسیسی، جرمن اور پولش زبانوں میں کِیا گیا۔ بھائی رتھرفورڈ کی دمدار آواز پورے ہال میں گُونج رہی تھی۔
پیرس میں ہونے والے اِس اِجتماع کے بعد سے فرانس میں مُنادی کے کام کو بہت فروغ ملا۔ اپنی ایک تقریر میں بھائی رتھرفورڈ نے مختلف ملکوں سے آنے والے نوجوانوں کی حوصلہافزائی کی کہ وہ فرانس میں پہلکاروں کے طور پر خدمت کریں۔ جان کوُک نامی نوجوان جن کا تعلق برطانیہ سے تھا، اُنہوں نے بتایا کہ وہ بھائی رتھرفورڈ کی اِس نصیحت کو کبھی نہیں بھولے: ”نوجوانو، کسی بھی چیز کو اِس بات کی اِجازت نہ دیں کہ وہ آپ کو پہلکاروں کے طور پر خدمت کرنے سے روکے۔“ *
بھائی جان کوُک نے کچھ عرصے تک فرانس میں پہلکار کے طور پر خدمت کی اور بعد میں وہ ایک مشنری بن گئے۔ دوسرے ملکوں سے تعلق رکھنے والے اَور بھی بہت سے نوجوان بہن بھائیوں نے فرانس میں پہلکاروں کے طور پر خدمت کی۔ یوں اُنہوں نے پولُس رسول کی مثال پر عمل کِیا جنہوں نے مکدینہ میں مُنادی کرنے کی دعوت قبول کی۔ (اعما 16:9، 10) اِس طرح فرانس میں پہلکاروں کی تعداد تیزی سے بڑھتی گئی۔ 1930ء میں فرانس میں صرف 27 پہلکار تھے لیکن 1931ء میں اِن کی تعداد 104 تک پہنچ گئی۔ اِن پہلکاروں میں سے زیادہتر فرانسیسی زبان نہیں بول سکتے تھے۔ یہ پہلکار نئی زبان سیکھنے، کم سہولیات میں گزارہ کرنے اور دوسرے مبشروں سے دُور رہنے کے باوجود خوش رہنے کے قابل کیسے ہوئے؟
نئی زبان
دوسرے ملکوں سے تعلق رکھنے والے پہلکار خوشخبری سنانے کے لیے ایسے کارڈ اِستعمال کرتے تھے جن پر بائبل کا پیغام لکھا ہوتا تھا۔ جرمنی سے تعلق رکھنے والا ایک بھائی جو بڑی دلیری سے پیرس میں خوشخبری سناتا تھا، اُس نے کہا: ”ہم جانتے تھے کہ ہمارا خدا بہت زورآور ہے۔ لیکن پھر بھی کبھی کبھار مُنادی کے دوران ڈر کی وجہ سے ہمارا دل تیزی سے دھڑکنے لگتا تھا۔ ہم اِنسانوں سے نہیں بلکہ اِس بات سے ڈرتے تھے کہ کہیں ہم فرانسیسی زبان کا وہ جملہ نہ بھول جائیں جو ہم نے زبانی یاد کِیا تھا۔ یہ جملہ تھا: ”کیا آپ یہ کارڈ پڑھنا پسند کریں گے؟“ ہمیں اِس بات کا پورا یقین تھا کہ ہم بہت ہی اہم کام کر رہے ہیں۔“
جب ہم فلیٹوں میں مُنادی کرتے تھے تو اکثر چوکیدار ہمیں وہاں سے نکال دیا کرتے تھے۔ ایک دن برطانیہ سے تعلق رکھنے والی دو بہنوں کا سامنا ایک بہت ہی غصیلے چوکیدار سے ہوا۔ اِن بہنوں کو بہت کم فرانسیسی زبان آتی تھی۔ اِس چوکیدار نے بڑے غصے میں اُن سے پوچھا کہ وہ کس سے ملنا چاہتی ہیں۔ اُس کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے ایک بہن نے دروازے پر ایک تحریر کی طرف اِشارہ کِیا۔ اِس پر فرانسیسی زبان میں لکھا تھا: ”گھنٹی بجائیں۔“ اِس بہن کو لگا کہ یہ خاتونِخانہ کا نام ہوگا اِس لیے اُس نے چوکیدار سے کہا: ”ہم میڈم ”گھنٹی بجائیں“ سے ملنے آئے ہیں۔“ چونکہ پہلکار اِس طرح کی غلطیوں پر ہنسا کرتے تھے اِس لیے وہ مُنادی کا کام جاری رکھنے کے قابل ہوئے۔
سہولیات کی کمی اور دوسرے مبشروں سے دُوری
1930ء کی دہائی میں فرانس میں بہت سے مقامی لوگوں کو زیادہ سہولیات میسر نہیں تھیں اور دوسرے ملکوں سے آنے والے پہلکاروں کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی تھی۔ برطانیہ سے تعلق رکھنے والی بہن مونا بروزکا نے بتایا کہ اُنہیں اور اُن کی ساتھی پہلکار کو کن مسائل کا سامنا ہوا۔ اُنہوں نے کہا: ”ہم جہاں رہتے تھے وہاں ہمارے پاس زیادہ سہولیات نہیں تھیں۔ ایک بڑا مسئلہ یہ تھا کہ سردیوں میں کمرے کو گرم رکھنے کا کوئی اِنتظام نہیں تھا۔ ہمیں اکثر یخ ٹھنڈے کمرے میں رہنا پڑتا تھا۔ ہم ایک ٹب میں پانی جمع کر کے رکھتے تھے جس پر برف کی تہہ جم جاتی تھی اور نہانے سے پہلے ہمیں اِسے توڑنا پڑتا تھا۔“ کیا پہلکار ایسی مشکلات کی وجہ سے بےحوصلہ ہو گئے؟ بالکل نہیں۔ ایک پہلکار نے اپنے احساسات کا اِظہار یوں کِیا: ”حالانکہ ہمارے پاس اپنا کچھ نہیں تھا لیکن ہمیں کسی چیز کی کمی بھی نہیں تھی۔“—متی 6:33۔
اِن پہلکاروں کو ایک اَور مسئلے کا بھی سامنا تھا۔ 1930ء کی دہائی کے شروع میں فرانس میں مبشروں کی تعداد 700 سے کم تھی اور مبشر ملک کے مختلف حصوں میں رہتے تھے۔ اِن پہلکاروں نے دوسرے مبشروں سے دُور رہنے کے باوجود اپنی خوشی کیسے قائم رکھی؟ اِس سلسلے میں بہن مونا کی مثال پر غور کریں۔ وہ اور اُن کی ساتھی پہلکار بھی دوسرے بہن بھائیوں سے کافی دُور علاقے میں رہتی تھیں۔ بہن مونا نے بتایا: ”چونکہ ہمارے علاقے میں کوئی کلیسیا نہیں تھی اِس لیے ہم دونوں خود ہی مل کر تنظیم کی کتابوں اور رسالوں کا مطالعہ کر لیتی تھیں۔ اُس زمانے میں ہم نہ تو کسی سے دوبارہ ملاقات کرتے تھے اور نہ کسی کو بائبل کورس کراتے تھے۔ اِس لیے ہمارے پاس شام کو اپنے گھر والوں خاص طور پر دوسرے پہلکاروں کو خط لکھنے کا وقت ہوتا تھا۔ خط میں ہم پہلکار ایک دوسرے کو اپنے تجربات بتاتے تھے اور ایک دوسرے کی حوصلہافزائی کرتے تھے۔“—1-تھس 5:11۔
اِن پہلکاروں نے مشکلات کے باوجود اپنی خوشی برقرار رکھی۔ یہ بات اُن خطوں سے نظر آتی ہے جو پہلکاروں نے فرانس میں خدمت کرنے کے بعد برانچ کو لکھے۔ اِس سلسلے میں ایک ممسوح بہن عینی کرگین کی مثال پر غور کریں۔ اُنہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ 1931ء سے 1935ء تک فرانس کے بہت سے علاقوں میں خدمت کی۔ اُنہوں نے لکھا: ”وہاں ہمارا وقت بہت ہی اچھا گزرا۔ ہم سب پہلکار ایک دوسرے کے بہت اچھے دوست تھے۔ ہم بھی پولُس رسول کی طرح کام کر رہے تھے جنہوں نے کہا: ”مَیں نے درخت لگایا اور اپلوؔس نے پانی دیا مگر بڑھایا خدا نے۔““ جن پہلکاروں کو بہت سال پہلے فرانس میں خدمت کرنے کا موقع ملا، اُنہیں یہ جان کر بڑی خوشی ہوتی ہے کہ اُن کی محنت رنگ لائی ہے۔—1-کُر 3:6۔
اِن پہلکاروں نے مشکلات کو سہنے اور جوش سے خدمت کرنے کی ایک عمدہ مثال قائم کی۔ آجکل جو بہن بھائی یہوواہ خدا کی زیادہ خدمت کرنا چاہتے ہیں، وہ اِن پہلکاروں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ آج فرانس میں تقریباً 14 ہزار پہلکار ہیں۔ اِن میں سے بہت سے دوسری زبان بولنے والے گروپوں یا کلیسیاؤں میں خدمت کر رہے ہیں۔ * یہ پہلکار بھی اپنی خدمت میں کسی بھی چیز کو حائل نہیں ہونے دیتے۔—فرانس میں ہماری برانچ کی طرف سے۔
^ پیراگراف 4 یہ جاننے کے لیے کہ پولینڈ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو فرانس میں خوشخبری کیسے سنائی گئی، مینارِنگہبانی 15 اگست 2015ء میں مضمون ”یہوواہ آپ کو سچائی سیکھنے کے لیے فرانس لایا ہے“ کو دیکھیں۔
^ پیراگراف 13 2014ء میں فرانس میں ہماری برانچ کے تحت دوسری زبان کی 900 سے زیادہ کلیسیائیں اور گروپ 70 زبانوں میں لوگوں کو سچائی سکھا رہے ہیں۔