کیا انسان کبھی باغِعدن میں رہتے تھے؟
کیا انسان کبھی باغِعدن میں رہتے تھے؟
فرض کریں کہ آپ ایک بہت بڑے خوبصورت باغ میں ہیں۔ اِس باغ میں ہر طرف سکون ہی سکون ہے۔ یہاں باہر سے کسی قسم کا شور نہیں آتا۔ سب سے اچھی بات تو یہ ہے کہ آپ کا ذہن ہر طرح کی فکر سے آزاد ہے۔ آپ کو کسی قسم کی کوئی تکلیف یا بیماری نہیں ہے۔ اِس لئے آپ سکون سے اپنے اِردگِرد کے ماحول سے لطفاندوز ہو رہے ہیں۔
آپ کی نظر سب سے پہلے رنگبرنگے پھولوں پر پڑتی ہے۔ پھر آپ ندی کے چمکتے ہوئے پانی کو دیکھتے ہیں۔ اِس کے بعد آپ درختوں کے پتوں اور گھاس کو دیکھتے ہیں جن کا رنگ دھوپ اور سائے میں بدلتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ آپ بھینیبھینی خوشبو والی ہوا کے جھونکے محسوس کرتے ہیں۔ آپ پتوں کی سرسراہٹ، بہتے جھرنوں، پرندوں کے گیتوں اور کیڑےمکوڑوں کے بھنبھنانے کی آوازیں سنتے ہیں۔ جب آپ ایسے منظر کا تصور کرتے ہیں تو کیا آپ کا دل نہیں چاہتا کہ آپ ایسی جگہ میں ہوں؟
پوری دُنیا میں بہت سے لوگ یہ مانتے ہیں کہ انسانی زندگی کا آغاز ایسی ہی جگہ سے ہوا تھا۔ کئی صدیوں سے یہودیوں، مسیحیوں اور مسلمانوں کو یہی سکھایا جا رہا ہے کہ خدا نے آدم اور حوا کو باغِعدن میں رکھا تھا۔ بائبل کے مطابق آدم اور حوا وہاں بہت خوش تھے۔ وہ آپس میں اور جانوروں کے ساتھ ملجُل کر رہتے تھے۔ نیز وہ خدا کی قربت میں تھے جس نے اُنہیں اِس شاندار ماحول میں ہمیشہ تک زندہ رہنے کی اُمید دی تھی۔—پیدایش ۲:۱۵-۲۴۔
ہندو بھی یہ مانتے ہیں کہ قدیم زمانے میں زمین فردوس تھی۔ بدھا کو ماننے والے یہ ایمان رکھتے ہیں کہ وقتاًفوقتاً ایسے سنہری دَور آتے ہیں جب زمین فردوس بن جاتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایسے دَور میں روحانی رہنما یعنی بدھا کی آمد ہوتی ہے۔ افریقہ میں بہت سے مذاہب لوگوں کو ایسی تعلیمات سکھاتے ہیں جو بائبل میں درج آدم اور حوا کی سرگزشت سے ملتیجلتی ہے۔
بہت سے مذاہب یہ خیال پیش کرتے ہیں کہ انسانی تاریخ کے آغاز میں زمین ایک فردوس تھی۔ اِس سلسلے میں ایک مصنف بیان کرتا ہے: ”مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ایسے فردوس پر یقین رکھتے تھے جس میں انسان گُناہ سے بالکل پاک تھے۔ وہ آزاد اور خوش تھے۔ اُن کے پاس کھانے پینے کی ہر چیز موجود تھی۔ اُن کی زندگی میں کوئی لڑائیجھگڑا یا پریشانی نہیں تھی۔ . . . اگرچہ یہ فردوس
انسانوں سے چھن گیا تو بھی پوری دُنیا میں لوگ آج بھی اِسے بھول نہیں پائے۔ اُن کی خواہش ہے کہ زمین دوبارہ فردوس بن جائے۔“کیا فردوس کے متعلق تمام کہانیوں کا حقیقت سے کوئی تعلق ہے؟ کیا واقعی ماضی میں عدن نام کا کوئی باغ تھا اور کیا واقعی آدم اور حوا وہاں رہتے تھے؟
آجکل بہت سے لوگ اِن باتوں کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ بعض کا خیال یہ ہے کہ باغِعدن کی سرگزشت سائنسی لحاظ سے درست نہیں ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ مذہبی رہنما بھی یہی تعلیم دیتے ہیں کہ باغِعدن کوئی حقیقی جگہ نہیں تھی۔ وہ کہتے ہیں آدم اور حوا کی سرگزشت محض ایک تمثیل ہے جو ہمیں کوئی اصول سکھانے کے لئے بائبل میں درج کی گئی ہے۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ بائبل میں بہت سی تمثیلیں پائی جاتی ہیں۔ خاص طور پر یسوع مسیح کی تمثیلوں کا تو کوئی جواب ہی نہیں۔ تاہم بائبل واضح کرتی ہے کہ باغِعدن میں ہونے والے واقعات تمثیل نہیں بلکہ حقیقت ہیں۔ ذرا سوچیں کہ اگر باغِعدن میں ہونے والے واقعات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تو پھر بائبل میں درج باقی باتوں کا یقین کیسے کِیا جا سکتا ہے؟ پس آئیں اِس بات پر غور کریں کہ بعض کیوں باغِعدن کو ایک حقیقی جگہ نہیں سمجھتے؟ نیز کیا اُن کے اعتراض درست ہیں؟ ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ باغِعدن میں ہونے والے واقعات کی ہمارے لئے کیا اہمیت ہے؟