مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

زندگی بےمعنی کیوں لگتی ہے؟‏

زندگی بےمعنی کیوں لگتی ہے؟‏

زندگی بےمعنی کیوں لگتی ہے؟‏

سلیمان بادشاہ نے کہا کہ انسان کی زندگی ”‏چند دنوں“‏ کی ہے اور وہ اِسے ”‏سائے کی طرح کاٹتا ہے۔‏“‏ (‏واعظ ۷:‏۱ ‏[‏۶:‏۱۲]‏‏،‏ کیتھولک ترجمہ)‏ کیا کبھی ایسا وقت آئے گا جب انسان کی زندگی واقعی بامقصد ہوگی؟‏ بائبل میں وعدہ کِیا گیا ہے کہ ایک ایسا وقت ضرور آئے گا۔‏ ہم اِس وعدے پر بھروسا رکھ سکتے ہیں کیونکہ بائبل میں لکھی ہر بات سچ ثابت ہوتی ہے۔‏—‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۶،‏ ۱۷‏۔‏

پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ خدا نے زمین کو کس لئے خلق کِیا تھا۔‏ بائبل سے ہم یہ بھی جان سکتے ہیں کہ اِس دُنیا میں ناانصافی،‏ ظلم اور دُکھ‌تکلیف اِس قدر عام کیوں ہو گئے ہیں۔‏ ہمیں اِن معلومات میں دلچسپی کیوں لینی چاہئے؟‏ کیونکہ زیادہ‌تر لوگوں کو اپنی زندگی اِس لئے بےمعنی لگتی ہے کیونکہ وہ یہ نہیں جانتے کہ زمین اور انسان کو بنانے سے خدا کا مقصد کیا تھا۔‏

خدا نے زمین کو کس لئے بنایا؟‏

پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ یہوواہ خدا * نے زمین کو اِس لئے بنایا کہ اِس پر ایک فردوس قائم ہو جس میں انسان ہمیشہ تک خوشگوار زندگی گزار سکیں۔‏ یہ تعلیم دراصل اِس تعلیم کے بالکل خلاف ہے کہ زمین محض ایک امتحان‌گاہ ہے جس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ کونسے لوگ آسمان پر خوشگوار زندگی گزارنے کے لائق ہیں۔‏—‏صفحہ ۶ پر بکس ”‏خوشیوں سے بھری زندگی—‏زمین پر یا کسی اَور جہان میں؟‏“‏ کو دیکھیں۔‏

خدا نے آدم اور حوا کو ”‏اپنی صورت پر پیدا کِیا۔‏“‏ (‏پیدایش ۱:‏۲۶،‏ ۲۷‏)‏ اِس کا مطلب ہے کہ خدا نے اُنہیں ایسی صفات سے نوازا تھا جو خود اُس میں بھی ہیں۔‏ اُس نے اُنہیں سب کچھ دیا تھا تاکہ وہ ایک کامیاب اور بامقصد زندگی گزار سکیں۔‏ آدم اور حوا میں کوئی نقص نہیں تھا۔‏ خدا نے اُنہیں ایک خوبصورت باغ میں رکھا جس کا نام عدن تھا۔‏ خدا نے اُنہیں یہ ذمہ‌داری بھی سونپی کہ وہ زمین کو اپنی اولاد سے بھر دیں اور اِسے باغِ‌عدن کی طرح فردوس بنا دیں۔‏—‏پیدایش ۱:‏۲۸-‏۳۱؛‏ ۲:‏۸،‏ ۹‏۔‏

زمین پر بُرائی کیوں آ گئی؟‏

لیکن آج‌کل تو زمین فردوس نہیں ہے اور زیادہ‌تر انسان خدا کی صفات ظاہر نہیں کرتے۔‏ ایسی صورتحال کیسے پیدا ہو گئی؟‏ خدا نے آدم اور حوا کو یہ آزادی دی تھی کہ وہ اپنی راہ کا انتخاب خود کریں۔‏ لیکن اُنہوں نے اِس آزادی کا غلط استعمال کِیا۔‏ وہ ”‏خدا کی مانند“‏ بننا چاہتے تھے اور خود فیصلہ کرنا چاہتے تھے کہ اچھائی کیا ہے اور بُرائی کیا ہے۔‏ اِس طرح اُنہوں نے شیطان کی پیروی کی جو پہلے ہی خدا کے خلاف بغاوت کر چُکا تھا۔‏—‏پیدایش ۳:‏۱-‏۶‏۔‏

اِس سے پتہ چلتا ہے کہ خدا کبھی نہیں چاہتا تھا کہ بُرائی دُنیا میں آئے۔‏ بُرائی تب وجود میں آئی جب شیطان نے خدا کی حکمرانی کے خلاف بغاوت کی اور آدم اور حوا نے اُس کا ساتھ دیا۔‏ اِس بغاوت کے نتیجے میں آدم اور حوا کو فردوس سے نکال دیا گیا،‏ وہ عیب‌دار ہو گئے اور اُن کو مرنا پڑا۔‏ یوں اُن کی اولاد بھی گُناہ اور موت کی گرفت میں آ گئی۔‏ (‏پیدایش ۳:‏۱۷-‏۱۹؛‏ رومیوں ۵:‏۱۲‏)‏ اِن ہی واقعات کی وجہ سے انسان اِس حال کو پہنچا ہے کہ اُس کی زندگی بےمعنی لگتی ہے۔‏

خدا نے بُرائی کو فوراً ختم کیوں نہیں کِیا؟‏

بعض لوگ شاید سوچیں کہ اگر خدا فوراً ہی شیطان،‏ آدم اور حوا کو ختم کرکے انسانوں کو نئے سرے سے خلق کر دیتا تو بُرائی کا وجود ہی ختم ہو جاتا۔‏ خدا نے ایسا کیوں نہیں کِیا؟‏ ذرا سوچیں:‏ کِیا ایسا کرنے سے مسئلہ واقعی حل ہو جاتا؟‏ فرض کریں کہ ایک حکومت فوراً ہی اُن تمام لوگوں کو ختم کر دیتی ہے جو اُس کی حکمرانی پر اعتراض کرتے ہیں۔‏ اِس پر انصاف‌پسند لوگوں کا ردِعمل کیا ہوگا؟‏ کیا وہ اِس حکومت کو اچھائی اور بُرائی کے معیار قائم کرنے کے اہل سمجھیں گے؟‏

اِسی وجہ سے خدا نے شیطان،‏ آدم اور حوا کو فوراً ختم نہیں کِیا بلکہ اُس نے وقت گزرنے دیا تاکہ یہ باغی جھوٹے ثابت ہوں اور یہوواہ خدا کی حکمرانی ہمیشہ کے لئے سچی ثابت ہو۔‏

بُرائی کا خاتمہ نزدیک ہے

ہمیں اِس بات کو یاد رکھنا چاہئے کہ خدا نے بُرائی کو ایک محدود وقت کے لئے رہنے دیا ہے۔‏ وہ جانتا ہے کہ وہ اُس نقصان کے اثر کو مٹا سکتا ہے جو شیطان،‏ آدم اور حوا کی بغاوت کے نتیجے میں ہوا ہے۔‏

زمین اور انسان کے لئے یہوواہ خدا کا مقصد آج بھی وہی ہے جو شروع میں تھا۔‏ یسعیاہ نبی نے بتایا کہ یہوواہ خدا نے زمین کو ”‏خالی پڑی رہنے کے لیے نہیں بلکہ آباد ہونے کے لیے آراستہ کِیا۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۴۵:‏۱۸‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن)‏ بہت ہی جلد وہ زمین کے سلسلے میں اپنا مقصد پورا کرے گا۔‏ وہ یہ ثابت کرے گا کہ اُس کی حکمرانی ہی بہترین ہے۔‏ پھر جب وہ بُرائی کو ختم کرنے کے لئے کارروائی کرے گا تو کسی کو اِس پر اعتراض نہیں ہوگا۔‏ (‏یسعیاہ ۵۵:‏۱۰،‏ ۱۱‏)‏ یسوع مسیح نے بھی اپنے شاگردوں سے کہا کہ جب وہ دُعا کریں تو وہ خدا سے بُرائی کو ختم کرنے کی التجا کریں۔‏ اُنہوں نے یوں دُعا کرنا سکھایا:‏ ”‏تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو۔‏“‏ (‏متی ۶:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ لیکن سوال یہ ہے کہ زمین کے لئے خدا کی مرضی کیا ہے؟‏

زمین کے لئے خدا کی مرضی

خدا کی مرضی یہ ہے کہ ”‏حلیم مُلک کے وارث ہوں۔‏“‏ (‏زبور ۳۷:‏۹-‏۱۱،‏ ۲۹؛‏ امثال ۲:‏۲۱،‏ ۲۲‏)‏ یسوع مسیح ”‏محتاج کو جب وہ فریاد کرے اور غریب کو جس کا کوئی مددگار نہیں چھڑائے گا۔‏“‏ وہ ”‏اُنکی جان کو ظلم اور جبر سے چھڑائے گا۔‏“‏ (‏زبور ۷۲:‏۱۲-‏۱۴‏)‏ کہیں پر جنگ نہیں ہوگی۔‏ موت،‏ دُکھ‌درد اور تکلیف کا خاتمہ ہو جائے گا۔‏ (‏زبور ۴۶:‏۹؛‏ مکاشفہ ۲۱:‏۱-‏۴‏)‏ کروڑوں لوگ جو مر چکے ہیں،‏ اُنکو زمین پر زندہ کِیا جائے گا۔‏ اُنہیں بھی زمین پر ہمیشہ تک خوشگوار زندگی گزارنے کا موقع دیا جائے گا۔‏—‏یوحنا ۵:‏۲۸،‏ ۲۹‏۔‏

یوں یہوواہ خدا اُس نقصان کے اثر کو مٹا دے گا جو شیطان کی بغاوت کے نتیجے میں ہوا ہے۔‏ وہ دُنیا کے مسائل کو پوری طرح حل کر دے گا،‏ یہاں تک کہ آج کی تمام ”‏مصیبتیں بھلا دی جائیں گی۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۶۵:‏۱۶-‏۱۹‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن)‏ آپ اِن باتوں پر پورا یقین رکھ سکتے ہیں کیونکہ اِن کا وعدہ یہوواہ خدا نے کِیا ہے جو کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔‏ اُس وقت زندگی ”‏بےمعنی اور ہوا کے تعاقب کی مانند“‏ نہیں ہوگی بلکہ تمام انسانوں کی زندگی بامقصد ہوگی۔‏—‏واعظ ۲:‏۱۷‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن۔‏

لیکن کیا آج بھی ہماری زندگی بامقصد ہو سکتی ہے؟‏ کیا واقعی زمین کے لئے خدا کے مقصد کو جان لینے سے ہماری زندگی بامقصد ہو سکتی ہے؟‏ آئیں،‏ اِس سلسلے میں اگلے مضمون پر غور کریں۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 5 بائبل کے مطابق خدا کا نام یہوواہ ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۶ پر بکس]‏

خوشیوں سے بھری زندگی—‏زمین پر یا کسی اَور جہان میں؟‏

کئی صدیوں سے ایسے لوگ جو زمین کے لئے خدا کے مقصد سے واقف نہیں ہیں،‏ یہ تعلیم دے رہے ہیں کہ انسان کو زمین سے رُخصت ہو کر کسی اَور جہان میں جانا پڑے گا تاکہ وہ خوشیوں سے بھری زندگی گزار سکے۔‏

بعض عالموں نے یہ خیال پیش کِیا کہ انسان کے اندر روح ہے۔‏ اُن کا کہنا تھا کہ ”‏انسانی جسم میں آنے سے پہلے روح کسی اَور جہان میں بسیرا کرتی ہے۔‏“‏ ‏(‏نیو ڈکشنری آف تھیالوجی)‏ دوسرے عالموں کا خیال تھا کہ ”‏جو روحیں آسمان پر گُناہ کرتی ہیں،‏ اُنہیں سزا کے طور پر انسانی جسم میں قید کر دیا جاتا ہے۔‏“‏‏—‏سائیکلوپیڈیا آف ببلکل،‏ تھیالوجکل،‏ اینڈ اکلیسیاسٹکل لٹریچر۔‏

سقراط اور افلاطون جیسے یونانی فلاسفروں نے یہ فلسفہ پیش کِیا:‏ ”‏جب انسان مر جاتا ہے تو روح جسم کی ہر پابندی سے آزاد ہو جاتی ہے۔‏ وہ خطاؤں،‏ خوف،‏ ہوس اور دوسری انسانی کمزوریوں کی قید سے رِہا ہو جاتی ہے اور آخرکار ہمیشہ تک دیوتاؤں کے عالم میں بستی ہے۔‏“‏—‏افلاطون کی کتاب فیدو،‏ باب ۸۱الف۔‏

بعد میں مسیحیت کے کچھ رہنماؤں نے بھی یونانی فلاسفروں کے اِس نظریے کو اپنی تعلیمات میں شامل کر لیا کہ ”‏روح،‏ انسان کے مرنے کے بعد بھی زندہ رہتی ہے۔‏“‏‏—‏مسیحی دُنیا کی تاریخ ‏(‏انگریزی زبان میں دستیاب)‏۔‏

ذرا اِن نظریات کا مقابلہ بائبل کی اِن تین بنیادی تعلیمات سے کریں:‏

۱.‏ خدا یہ چاہتا ہے کہ انسان ہمیشہ تک زمین پر آباد رہیں۔‏ زمین کوئی امتحان‌گاہ نہیں ہے جس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ کونسے لوگ آسمان پر خدا کے ساتھ رہنے کے لائق ہیں۔‏ اگر آدم اور حوا خدا کے فرمانبردار رہتے تو وہ آج بھی زندہ ہوتے اور زمین پر فردوس میں رہتے۔‏—‏پیدایش ۱:‏۲۷،‏ ۲۸؛‏ زبور ۱۱۵:‏۱۶‏۔‏

۲.‏ حالانکہ زیادہ‌تر مذاہب یہ تعلیم دیتے ہیں کہ انسان کے اندر روح ہے جو کبھی نہیں مرتی لیکن بائبل یہ تعلیم دیتی ہے کہ مرنے پر انسان کا وجود ختم ہو جاتا ہے۔‏ (‏زبور ۱۴۶:‏۴؛‏ واعظ ۹:‏۵،‏ ۱۰‏)‏ خدا نے آدم کو زمین کی مٹی سے بنایا تھا اور جب آدم مر گئے تو وہ خاک میں لوٹ گئے۔‏ اُن کا وجود بالکل ختم ہو گیا۔‏—‏پیدایش ۲:‏۱۷؛‏ ۳:‏۱۹‏۔‏

۳.‏ خدا نے یہ وعدہ نہیں کِیا کہ انسان مرنے کے بعد کسی اَور جہان میں چلا جائے گا بلکہ اُس نے یہ وعدہ کِیا ہے کہ مُردے زمین پر زندہ کئے جائیں گے۔‏—‏دانی‌ایل ۱۲:‏۱۳؛‏ یوحنا ۱۱:‏۲۴-‏۲۶؛‏ اعمال ۲۴:‏۱۵‏۔‏