مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ہمت سے مصیبتوں کا سامنا کریں

ہمت سے مصیبتوں کا سامنا کریں

ہمت سے مصیبتوں کا سامنا کریں

‏”‏خدا ہماری پناہ اور قوت ہے۔‏ مصیبت میں مستعد مددگار۔‏“‏—‏زبور ۴۶:‏۱‏۔‏

آپ اِن سوالوں کے کیا جواب دیں گے؟‏

ہم مشکل وقت میں بےحوصلہ ہونے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏

ہمارے پاس ہمت سے کام لینے کی کیا وجہ ہے؟‏

یہوواہ خدا کن مختلف ذریعوں سے ہماری مدد کرتا ہے تاکہ ہم مشکلات کا سامنا ہمت سے کر سکیں؟‏

۱،‏ ۲.‏ ‏(‏الف)‏ بہت سے لوگوں کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے؟‏ (‏ب)‏ خدا کے بندوں کی خواہش کیا ہے؟‏

ہم ایک ایسے دَور میں رہ رہے ہیں جس میں مشکلات نے ہمیں گھیر رکھا ہے۔‏ قدرتی آفتوں نے اِس زمین کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔‏ زلزلوں،‏ سیلابوں،‏ سمندری طوفانوں اور ایسی ہی دیگر آفتوں نے بہت سے انسانوں کی زندگی عذاب میں ڈال رکھی ہے۔‏ اِس کے علاوہ گھریلو اور ذاتی مسائل کی وجہ سے بہت سے لوگ افسردگی اور پریشانی میں مبتلا رہتے ہیں۔‏ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ہم سب ’‏وقت اور حادثے‘‏ کا شکار ہوتے ہیں۔‏—‏واعظ ۹:‏۱۱‏۔‏

۲ اِن تمام بدترین حالات کے باوجود اجتماعی طور پر خدا کے بندے خوشی سے اُس کی خدمت کر رہے ہیں۔‏ لیکن انفرادی طور پر بھی ہماری یہ خواہش ہے کہ ہم کسی بھی مشکل یا مصیبت کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہیں کیونکہ جیسے جیسے خاتمہ قریب آئے گا،‏ مشکلات بڑھتی جائیں گی۔‏ ہم مشکلات کے باوجود خوشی سے یہوواہ خدا کی خدمت کیسے جاری رکھ سکتے ہیں؟‏ ہم ہمت سے مصیبتوں کا مقابلہ کرنے کے قابل کیسے ہو سکتے ہیں؟‏

مصیبتوں کا ہمت سے سامنا کرنے کی زندہ مثالیں

۳.‏ رومیوں ۱۵:‏۴ کے مطابق ہم مصیبتوں سے نپٹنے کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟‏

۳ یہ سچ ہے کہ آج‌کل لوگ پہلے سے کہیں زیادہ مصیبتوں میں گِھرے ہوئے ہیں۔‏ لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں کہ پُرانے زمانے میں مشکلات نہیں تھیں۔‏ اُس وقت بھی بہت سے لوگ نہایت کٹھن حالات سے گزرے تھے۔‏ آئیں،‏ خدا کے چند وفادار بندوں کی مثالوں پر غور کریں جو ہزاروں سال پہلے رہتے تھے۔‏ ہم دیکھیں گے کہ اُنہوں نے کس طرح ہمت اور کامیابی سے مصیبتوں کا سامنا کِیا تھا۔‏—‏روم ۱۵:‏۴‏۔‏

۴.‏ داؤد بادشاہ کو کن مصیبتوں سے گزرنا پڑا اور وہ اِن کا سامنا کرنے کے قابل کیسے ہوئے؟‏

۴ سب سے پہلے داؤد بادشاہ کی مثال پر غور کریں۔‏ اُنہیں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔‏ مثال کے طور پر بادشاہ ساؤل اُن کی جان لینا چاہتے تھے؛‏ اُن کے دُشمنوں نے اُن پر حملے کئے اور ایک بار اُن کی بیویوں کو قیدی بنا کر لے گئے؛‏ اُن کے اپنے بیٹے اور ایک جگری دوست نے اُن کے خلاف بغاوت کی اور بعض اوقات وہ افسردگی کا شکار بھی ہوئے۔‏ (‏۱-‏سمو ۱۸:‏۸،‏ ۹؛‏ ۳۰:‏۱-‏۵؛‏ ۲-‏سمو ۱۷:‏۱-‏۳؛‏ ۲۴:‏۱۵،‏ ۱۷؛‏ زبور ۳۸:‏۴-‏۸‏)‏ بائبل میں صاف طور پر بتایا گیا ہے کہ اِن تمام مصیبتوں کی وجہ سے داؤد کتنے دُکھ اور غم میں مبتلا رہے تھے۔‏ لیکن مشکل کی اِن گھڑیوں میں بھی داؤد بادشاہ کا خدا پر ایمان کمزور نہیں ہوا تھا۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ میری زندگی کا پشتہ ہے۔‏ مجھے کس کی ہیبت؟‏“‏—‏زبور ۲۷:‏۱؛‏ زبور ۲۷:‏۵،‏ ۱۰ کو پڑھیں۔‏

۵.‏ ابرہام اور سارہ نے مشکلات کا مقابلہ کیسے کِیا؟‏

۵ ابرہام اور سارہ نے اپنی زیادہ‌تر زندگی خیموں میں گزاری۔‏ وہ انجان علاقوں میں رہے۔‏ اُنہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔‏ مثال کے طور پر جس علاقے میں وہ رہتے تھے وہاں سخت کال پڑا۔‏ اِس کے علاوہ اُنہیں آس‌پاس کی دُشمن قوموں کی وجہ سے بھی پریشانی اُٹھانی پڑی۔‏ لیکن اُنہوں نے بڑی دلیری سے مشکلات کا مقابلہ کِیا۔‏ (‏پید ۱۲:‏۱۰؛‏ ۱۴:‏۱۴-‏۱۶‏)‏ وہ ایسا کرنے کے قابل کیسے ہوئے تھے؟‏ پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ ابرہام ’‏اُس پایدار شہر کے اُمیدوار تھے جس کا معمار اور بنانے والا خدا ہے۔‏‘‏ (‏عبر ۱۱:‏۸-‏۱۰‏)‏ ابرہام اور سارہ نے مشکلات کو اپنے اُوپر حاوی نہیں ہونے دیا تھا بلکہ اُنہوں نے اپنا دھیان خدا کے وعدوں پر رکھا۔‏

۶.‏ ہم ایوب کی مثال پر عمل کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۶ ایوب پر بھی بہت سی مصیبتیں آئی تھیں۔‏ ذرا سوچیں کہ جب اُن پر ایک کے بعد ایک مشکلوں کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے تو اُن کو کیسا محسوس ہو رہا ہوگا؟‏ (‏ایو ۳:‏۳،‏ ۱۱‏)‏ اُن کو اِس بات کا پتہ نہیں تھا کہ اُن پر یہ ساری مصیبتیں کیوں آ رہی ہیں۔‏ پھر بھی اُنہوں نے ہمت نہ ہاری۔‏ وہ خدا کے وفادار رہے اور اپنے ایمان کو کمزور نہ ہونے دیا۔‏ ‏(‏ایوب ۲۷:‏۵ کو پڑھیں۔‏)‏ اُنہوں نے ہمارے لئے کیا ہی اچھی مثال قائم کی!‏

۷.‏ پولس رسول کن مشکلات سے گزرے لیکن وہ ہمت کیوں نہیں ہارے تھے؟‏

۷ اب ذرا پولس رسول کی مثال پر غور کریں۔‏ وہ ”‏شہر کے خطروں میں۔‏ بیابان کے خطروں میں۔‏ سمندر کے خطروں میں“‏ رہے۔‏ اُنہوں نے بتایا کہ وہ اکثر ’‏بھوک اور پیاس کی مصیبت میں اور سردی اور ننگےپن کی حالت میں رہے۔‏‘‏ اُنہوں یہ بھی کہا کہ وہ ”‏تین مرتبہ جہاز ٹوٹنے کی بلا“‏ میں پڑے اور شاید اِنہی میں سے ایک موقعے پر اُنہوں نے ”‏ایک رات دن سمندر میں کاٹا“‏ تھا۔‏ (‏۲-‏کر ۱۱:‏۲۳-‏۲۷‏)‏ اِن تمام مصیبتوں کے باوجود پولس رسول ہمت نہ ہارے بلکہ اُن کا ایمان مضبوط رہا۔‏ ایک مرتبہ تو خدا کی خدمت کی خاطر اُن کی جان خطرے میں پڑ گئی۔‏ اُنہوں نے بتایا کہ ہم ”‏اپنے اُوپر موت کے حکم کا یقین کر چکے تھے تاکہ اپنا بھروسا نہ رکھیں بلکہ خدا کا جو مُردوں کو جِلاتا ہے۔‏ چُنانچہ اُسی نے ہم کو ایسی بڑی ہلاکت سے چھڑایا اور چھڑائے گا۔‏“‏ (‏۲-‏کر ۱:‏۸-‏۱۰‏)‏ پولس رسول جتنے بُرے حالات سے گزرے،‏ اُتنے بُرے حالات کا سامنا کم ہی لوگوں کو ہوتا ہے۔‏ پھر بھی جب ہم کسی مشکل سے گزرتے ہیں تو اُن کی مثال پر غور کرنے سے ہماری ہمت بڑھتی ہے۔‏

مصیبتوں کے آگے گھٹنے نہ ٹیکیں

۸.‏ مثال سے واضح کریں کہ مشکلات کا ہم پر کیا اثر ہو سکتا ہے۔‏

۸ دُنیا میں پائی جانے والی بےشمار مصیبتوں کی وجہ سے بہت سے لوگ بےحوصلہ ہو جاتے ہیں،‏ یہاں تک کہ بعض مسیحی بھی یہ سوچنے لگتے ہیں کہ اِن مصیبتوں سے نپٹنا اُن کے بس میں نہیں۔‏ اِس سلسلے میں بہن لائنی * کی مثال پر غور کریں۔‏ وہ اپنے شوہر کے ساتھ ملک آسٹریلیا میں کُل‌وقتی خدمت کر رہی تھیں۔‏ پھر ایک دن اُنہیں پتہ چلا کہ اُنہیں چھاتی کا کینسر ہے۔‏ یہ خبر سن کر اُنہیں ایسا لگا جیسے اُن پر بجلی گر پڑی ہو۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏جو علاج مَیں کروا رہی تھی،‏ اُس سے مَیں اپنے جسم میں بہت کمزوری محسوس کرتی تھی اور دن‌بدن احساسِ‌کمتری کا شکار ہوتی جا رہی تھی۔‏“‏ اپنی مشکلات سہنے کے علاوہ اُنہیں اپنے شوہر کی دیکھ‌بھال بھی کرنی پڑتی تھی کیونکہ اُس کا ریڑھ کی ہڈی کا آپریشن ہوا تھا۔‏ اگر آپ ایسی صورتحال میں ہوں تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟‏

۹،‏ ۱۰.‏ ‏(‏الف)‏ ہمیں شیطان کو کیا کرنے کا موقع نہیں دینا چاہئے؟‏ (‏ب)‏ اعمال ۱۴:‏۲۲ میں جو کچھ لکھا ہے،‏ اُسے ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں کیا کرنے کی ضرورت ہے؟‏

۹ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ جو مشکلات ہم پر آتی ہیں،‏ شیطان اُن سے فائدہ اُٹھاتا ہے اور ہمارے ایمان کو کمزور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔‏ لیکن ہمیں اُسے ایسا کرنے کا موقع نہیں دینا چاہئے۔‏ اِس سلسلے میں امثال ۲۴:‏۱۰ میں لکھا ہے:‏ ”‏اگر تُو مصیبت کے دن بےدل ہو جائے تو تیری طاقت بہت کم ہے۔‏“‏ داؤد،‏ ابرہام،‏ سارہ،‏ ایوب اور پولس رسول جیسے خدا کے وفادار بندوں کی مثالوں پر غور کرنے سے ہم مشکل وقت میں ہمت سے کام لینے کے قابل ہوں گے۔‏

۱۰ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہم اپنی تمام مشکلات کو ختم نہیں کر سکتے بلکہ یہ دن‌بدن بڑھتی جائیں گی۔‏ (‏۲-‏تیم ۳:‏۱۲‏)‏ اِس سلسلے میں اعمال ۱۴:‏۲۲ میں لکھا ہے:‏ ”‏ضرور ہے کہ ہم بہت مصیبتیں سہہ کر خدا کی بادشاہی میں داخل ہوں۔‏“‏ ہمیں اپنی مصیبتوں کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکنے چاہئیں۔‏ اِس کی بجائے یاد رکھیں کہ کٹھن حالات میں آپ کو یہ ثابت کرنے کا موقع ملتا ہے کہ آپ خدا پر کس حد تک ایمان رکھتے ہیں۔‏

۱۱.‏ ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہم مشکلات کی وجہ سے بےحوصلہ نہ ہو جائیں؟‏

۱۱ مشکل وقت میں ہمیں اپنا دھیان اُن باتوں پر رکھنا چاہئے جو ہماری ہمت بڑھا سکتی ہیں۔‏ بائبل میں لکھا ہے:‏ ”‏خوش‌دلی خندہ‌روئی پیدا کرتی ہے پر دل کی غمگینی سے انسان شکستہ‌خاطر ہوتا ہے۔‏“‏ (‏امثا ۱۵:‏۱۳‏)‏ ڈاکٹر جانتے ہیں کہ مثبت سوچ رکھنے سے مریضوں کی صحت پر اچھا اثر پڑتا ہے۔‏ جو مریض یہ سوچتا ہے کہ دوائی کھانے سے وہ ٹھیک ہو جائے گا،‏ اُس کی تسلی کے لئے اگر ڈاکٹر اُسے محض میٹھی گولیاں بھی دیں گے تو اُسے فرق پڑے گا۔‏ لیکن جو مریض یہ سوچتا ہے کہ دوائی کھانے سے اُس پر کچھ بُرا اثر ہوگا تو اچھی سے اچھی دوائی سے بھی اُس کی صحت میں بہتری نہیں آئے گی۔‏ اِسی طرح اگر ہم ہر وقت ایسی مشکلات کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں جنہیں ہم ختم نہیں کر سکتے تو ہم بےحوصلہ ہو جائیں گے۔‏ یہوواہ خدا اُن ڈاکٹروں کی طرح نہیں ہے جو اپنے بعض مریضوں کو تسلی دینے کے لئے اُنہیں میٹھی گولیاں دیتے ہیں۔‏ وہ ہمیں ہمیشہ حقیقی تسلی دیتا ہے۔‏ وہ مصیبت کے وقت میں اپنے کلام کے ذریعے ہمیں حوصلہ بخشتا ہے۔‏ وہ روحُ‌القدس اور ہمارے بہن‌بھائیوں کے ذریعے ہماری ہمت بڑھاتا ہے۔‏ اِن باتوں پر دھیان رکھنے سے ہم خوش رہیں گے۔‏ جن مشکلات سے آپ گزر رہے ہیں،‏ اُن پر سوچتے رہنے کی بجائے اُن سے نپٹنے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں اور اپنی توجہ اُن برکات پر رکھیں جو ابھی آپ کے پاس ہیں۔‏—‏امثا ۱۷:‏۲۲‏۔‏

۱۲،‏ ۱۳.‏ ‏(‏الف)‏ مثال سے واضح کریں کہ خدا کے بندے قدرتی آفتوں کے اثرات سے نپٹنے کے قابل کیسے ہوئے ہیں۔‏ (‏ب)‏ قدرتی آفتوں کے دوران یہ بات کیسے واضح ہوتی ہے کہ ہماری زندگی میں سب اہم چیز کیا ہونی چاہئے؟‏

۱۲ حال ہی میں قدرتی آفتوں نے کچھ ملکوں میں بڑی تباہی مچائی ہے۔‏ اِن ملکوں میں رہنے والے بہن‌بھائیوں نے مشکلات کا بڑی ہمت سے مقابلہ کِیا حالانکہ یہ اُن کے لئے آسان نہیں تھا۔‏ مثال کے طور پر فروری ۲۰۱۰ء میں چلی کے ملک میں زلزلے اور سونامی نے ہمارے بہت سے بہن‌بھائیوں کے گھروں اور دوسری چیزوں کو تباہ کر دیا۔‏ بعض بہن‌بھائی اپنی ملازمت سے محروم ہو گئے اور بعض کا کاروبار ٹھپ ہو گیا۔‏ لیکن اِس سب کے باوجود اُنہوں نے خدا کی خدمت کرنا جاری رکھا۔‏ ایک بھائی جن کا نام سموئیل ہے،‏ اُن کا گھر بھی بالکل ملیامیٹ ہو گیا تھا۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏ایسے بدترین حالات میں بھی مَیں نے اور میری بیوی نے اجلاسوں پر جانا اور مُنادی کا کام کرنا نہیں چھوڑا تھا۔‏ میرے خیال میں یہی وجہ تھی کہ ہم مایوسی کا شکار نہیں ہوئے تھے۔‏“‏ اَور بہت سے بہن‌بھائیوں کی طرح وہ بھی اپنے نقصان کے غم کو بھلا کر خدا کی خدمت میں آگے بڑھتے چلے گئے۔‏

۱۳ ستمبر ۲۰۰۹ء میں فلپائن کے شہر منیلا کا ۸۰ فیصد علاقہ طوفانی بارشوں کی وجہ سے سیلاب کی زد میں آ گیا۔‏ ایک امیر شخص کو اِس سیلاب کی وجہ سے بہت نقصان ہوا۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏سیلاب نے امیر اور غریب کا فرق مٹا دیا۔‏ اِس نے دونوں کو نقصان پہنچایا اور جاتے جاتے سب کے لئے مصیبتیں چھوڑ گیا۔‏“‏ اِس واقعے سے ہمیں یسوع مسیح کی یہ نصیحت یاد آتی ہے:‏ ”‏اپنے واسطے زمین پر مال جمع نہ کرو .‏ .‏ .‏ بلکہ اپنے لئے آسمان پر مال جمع کرو جہاں نہ کیڑا خراب کرتا ہے نہ زنگ اور نہ وہاں چور نقب لگاتے اور چراتے ہیں۔‏“‏ (‏متی ۶:‏۱۹،‏ ۲۰‏)‏ جو لوگ مال‌ودولت پر بھروسا کرتے ہیں،‏ وہ اکثر مایوس ہوتے ہیں کیونکہ دولت تو آنی‌جانی شے ہے۔‏ اِس لئے یہ عقل‌مندی کی بات ہے کہ ہم یہوواہ خدا کے ساتھ دوستی کو اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت دیں کیونکہ یہ ایک ایسا بندھن ہے جسے کوئی آفت یا مصیبت نقصان نہیں پہنچا سکتی۔‏‏—‏عبرانیوں ۱۳:‏۵،‏ ۶ کو پڑھیں۔‏

ہمت سے کام لینے کی وجہ

۱۴.‏ ہمارے پاس ہمت سے کام لینے کی کیا وجہ ہے؟‏

۱۴ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو بتایا تھا کہ آخری زمانے میں بہت سی مشکلات آئیں گی۔‏ لیکن اُنہوں نے اُن سے کہا:‏ ”‏گھبرا نہ جانا۔‏“‏ (‏لو ۲۱:‏۹‏)‏ جب یسوع مسیح ہمارے بادشاہ ہیں اور کائنات کا خالق ہمارے ساتھ ہے تو پھر ہمیں ڈرنے کی کیا ضرورت ہے!‏ پولس رسول نے تیمتھیس سے کہا:‏ ”‏خدا نے ہمیں دہشت کی روح نہیں بلکہ قدرت اور محبت اور تربیت کی روح دی ہے۔‏“‏—‏۲-‏تیم ۱:‏۷‏۔‏

۱۵.‏ ‏(‏الف)‏ خدا کے بعض خادموں نے اُس پر اپنے بھروسے کا اِظہار کیسے کِیا؟‏ (‏ب)‏ اگر ہم بھی مشکلات کا سامنا ہمت سے کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں کیا کرنے کی ضرورت ہے؟‏

۱۵ ذرا غور کریں کہ خدا کے بعض خادموں نے اُس پر اپنے بھروسے کا اِظہار کیسے کِیا۔‏ مثال کے طور پر بادشاہ داؤد نے کہا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ میری قوت اور میری سپر ہے۔‏ میرے دل نے اُس پر توکل کِیا ہے اور مجھے مدد ملی ہے۔‏ اِسی لئے میرا دل نہایت شادمان ہے۔‏“‏ (‏زبور ۲۸:‏۷‏)‏ پولس رسول نے کہا:‏ ”‏اُن سب حالتوں میں اُس کے وسیلہ سے جس نے ہم سے محبت کی ہم کو فتح سے بھی بڑھ کر غلبہ حاصل ہوتا ہے۔‏“‏ (‏روم ۸:‏۳۷‏)‏ جب یسوع مسیح کی گرفتاری اور موت کا وقت قریب آ گیا تو اُنہوں نے ایک ایسی بات کہی جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ خدا پر کتنا زیادہ بھروسا رکھتے تھے۔‏ اُنہوں نے اپنے رسولوں کو بتایا:‏ ”‏مَیں اکیلا نہیں ہوں کیونکہ باپ میرے ساتھ ہے۔‏“‏ (‏یوح ۱۶:‏۳۲‏)‏ اِن بیانات سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟‏ اِن سے ظاہر ہوتا ہے کہ داؤد بادشاہ،‏ پولس رسول اور یسوع مسیح خدا پر مکمل بھروسا رکھتے تھے۔‏ خدا کے اِن وفادار بندوں کی طرح اگر ہم بھی خدا پر بھروسا کرنا سیکھ لیتے ہیں تو ہم ہر مصیبت کا سامنا ہمت اور حوصلے سے کر سکتے ہیں۔‏‏—‏زبور ۴۶:‏۱-‏۳ کو پڑھیں۔‏

یہوواہ خدا ہمیں کن ذریعوں سے ہمت بخشتا ہے؟‏

۱۶.‏ خدا کے پاک کلام کا مطالعہ کرنا کیوں ضروری ہے؟‏

۱۶ ہمارے اندر ہمت اپنی ذات پر بھروسا کرنے سے نہیں بلکہ خدا کو جاننے اور اُس پر بھروسا کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔‏ اِس لئے ہمیں خدا کے کلام کو باقاعدگی سے پڑھنا چاہئے۔‏ اِس سلسلے میں ایک بہن کی مثال پر غور کریں جو افسردگی میں مبتلا تھی۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏مَیں بائبل کی اُن آیتوں کو بار بار پڑھتی تھی جن سے مجھے تسلی ملتی تھی۔‏“‏ کیا ہم دیانت‌دار اور عقل‌مند نوکر کی ہدایت کے مطابق باقاعدگی سے خاندانی عبادت کرتے ہیں؟‏ خدا کے پاک کلام کا مطالعہ کرنے سے ہمارے اندر ویسی ہی سوچ پیدا ہوتی ہے جیسی زبور نویس کی تھی۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏آہ!‏ مَیں تیری شریعت سے کیسی محبت رکھتا ہوں۔‏ مجھے دن‌بھر اُسی کا دھیان رہتا ہے۔‏“‏—‏زبور ۱۱۹:‏۹۷‏۔‏

۱۷.‏ ‏(‏الف)‏ ایک اَور ذریعہ کون‌سا ہے جس سے یہوواہ خدا ہمیں ہمت بخشتا ہے؟‏ (‏ب)‏ کیا آپ کو کسی بھائی یا بہن کی زندگی کی داستان پڑھ کر فائدہ ہوا ہے؟‏

۱۷ دیانت‌دار اور عقل‌مند نوکر کی شائع کی ہوئی کتابوں اور رسالوں وغیرہ کو پڑھنے سے بھی یہوواہ خدا پر ہمارا بھروسا بڑھتا ہے۔‏ ہمارے رسالوں میں اکثر ایسے بہن‌بھائیوں کی زندگی کی داستانیں شائع ہوتی ہیں جنہوں نے یہوواہ خدا کی خدمت بڑی وفاداری سے کی ہے۔‏ اِن داستانوں کو پڑھنے سے ہمارے بہت سے بہن‌بھائیوں کو فائدہ ہوا ہے۔‏ اِس سلسلے میں ایشیا میں رہنے والی ایک بہن کی مثال پر غور کریں۔‏ وہ ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہے جس کی وجہ سے وہ کبھی تو بہت خوشی ہوتی ہے اور کبھی بہت ہی افسردہ رہتی ہے۔‏ اُس نے ایک رسالے میں ایک بھائی کی زندگی کے بارے میں پڑھا جو اِسی بیماری کا شکار تھا۔‏ اُس بھائی نے اِس بیماری کا مقابلہ بڑی کامیابی سے کِیا تھا اور کئی سال تک کُل‌وقتی خدمت بھی کی تھی۔‏ اُس بہن نے لکھا:‏ ”‏اِس بھائی کی داستان کو پڑھ کر مَیں اپنی حالت کو بہتر طور پر سمجھنے کے قابل ہوئی اور مجھے اپنی بیماری کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمت ملی۔‏“‏

۱۸.‏ ہمیں بِلاناغہ دُعا کیوں کرنی چاہئے؟‏

۱۸ دُعا کرنے سے ہم ہر طرح کے حالات میں خدا سے ہمت حاصل کر سکتے ہیں۔‏ پولس رسول نے دُعا کرنے کی اہمیت پر توجہ دِلاتے ہوئے کہا:‏ ”‏کسی بات کی فکر نہ کرو بلکہ ہر ایک بات میں تمہاری درخواستیں دُعا اور مِنت کے وسیلہ سے شکرگذاری کے ساتھ خدا کے سامنے پیش کی جائیں۔‏ تو خدا کا اِطمینان جو سمجھ سے بالکل باہر ہے تمہارے دلوں اور خیالوں کو مسیح یسوؔع میں محفوظ رکھے گا۔‏“‏ (‏فل ۴:‏۶،‏ ۷‏)‏ کیا ہم بِلاناغہ خدا سے دُعا کرتے ہیں تاکہ وہ ہمیں مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمت عطا کرے؟‏ ملک برطانیہ میں رہنے والے ایلکس جو کافی عرصے سے افسردگی کا شکار ہیں،‏ کہتے ہیں:‏ ”‏جب مَیں دُعا میں یہوواہ خدا سے بات کرتا ہوں اور اُس کے کلام کو پڑھنے سے اُس کی بات کو سنتا ہوں تو مجھے بہت ہی اطمینان اور سکون ملتا ہے۔‏“‏

۱۹.‏ اجلاسوں کے بارے میں ہمارا نظریہ کیا ہونا چاہئے؟‏

۱۹ اجلاسوں پر اپنے بہن‌بھائیوں سے مل کر بھی ہمیں ہمت اور طاقت حاصل ہوتی ہے۔‏ زبور نویس نے لکھا:‏ ”‏میری جان [‏یہوواہ]‏ کی بارگاہوں کے لیے تڑپتی ہے بلکہ بےچین ہو جاتی ہے۔‏“‏ (‏زبور ۸۴:‏۲‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن۔‏)‏ کیا ہم بھی زبور نویس کی طرح محسوس کرتے ہیں؟‏ لائنی جن کا پہلے ذکر کِیا گیا ہے،‏ وہ اجلاسوں میں جانے اور بہن‌بھائیوں سے ملنے کو بہت اہم سمجھتی ہیں۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏مَیں جانتی تھی کہ اپنی مشکلات سے نپٹنے کے لئے مجھے یہوواہ خدا کی مدد کی ضرورت ہے۔‏ اور یہ مدد مجھے تبھی ملے گی جب مَیں اجلاسوں میں جاؤں گی۔‏“‏

۲۰.‏ منادی کے کام میں مصروف رہنے سے ہمیں کیا فائدہ ہوتا ہے؟‏

۲۰ مُنادی کے کام میں مگن رہنے سے ہمیں مشکلات سے نپٹنے کی ہمت ملتی ہے۔‏ (‏۱-‏تیم ۴:‏۱۶‏)‏ ملک آسٹریلیا میں ایک بہن کو بہت سی مشکلات سے گزرنا پڑا۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏میرا ذرا بھی دل نہیں چاہتا تھا کہ مَیں مُنادی کے کام میں جاؤں۔‏ لیکن میری کلیسیا کے ایک بزرگ نے مجھے سے کہا کہ مَیں اُن کے ساتھ مُنادی کے کام میں چلوں۔‏ مَیں نے اُن کی بات مان لی۔‏ مجھے لگتا ہے کہ اِس میں یہوواہ خدا کی مرضی تھی۔‏ جتنی بار مَیں نے دوسروں کو بادشاہت کا پیغام سنایا،‏ مجھے اِس سے بڑی خوشی ملی۔‏“‏ (‏امثا ۱۶:‏۲۰‏)‏ ہمارے بہت سے بہن‌بھائیوں نے یہ دیکھا ہے کہ دوسروں کو یہوواہ خدا اور اُس کی بادشاہت کے بارے میں بتانے سے اُن کا اپنا ایمان مضبوط ہوتا ہے۔‏ جب ہم منادی کے کام میں مصروف رہتے ہیں تو ہمارا دھیان ہماری اپنی مشکلات کی بجائے زیادہ بہتر اور عمدہ باتوں پر رہتا ہے۔‏—‏فل ۱:‏۱۰،‏ ۱۱‏۔‏

۲۱.‏ اگر ہم پر مشکلیں آتی ہیں تو ہمیں کیا اعتماد رکھنا چاہئے؟‏

۲۱ ہم نے دیکھا ہے کہ یہوواہ خدا مختلف ذریعوں سے ہماری مدد کرتا ہے تاکہ ہم مصیبتوں کا مقابلہ ہمت سے کر سکیں۔‏ جب ہم اِن ذریعوں سے ملنے والی مدد کی قدر کرتے ہیں تو ہم کٹھن حالات میں بھی خوش رہ سکتے ہیں۔‏ اِس کے علاوہ جب ہم خدا کے وفادار بندوں کی مثال پر عمل کرتے ہیں تو ہم میں یہ اعتماد پیدا ہوتا ہے کہ ہم بھی کامیابی سے مصیبتوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔‏ ہم جانتے ہیں کہ جوں‌جوں اِس دُنیا کا خاتمہ نزدیک آئے گا،‏ ہمیں اَور زیادہ مشکلوں کا سامنا ہوگا۔‏ لیکن ہم پولس رسول جیسا بھروسا رکھتے ہیں۔‏ اُنہوں نے کہا تھا کہ ہم ”‏گِرائے تو جاتے ہیں لیکن ہلاک نہیں ہوتے۔‏ .‏ .‏ .‏ ہم ہمت نہیں ہارتے۔‏“‏ (‏۲-‏کر ۴:‏۹،‏ ۱۶‏)‏ واقعی یہوواہ خدا کے بھروسے پر ہم اپنی راہ میں آنے والی ہر مشکل کا مقابلہ ہمت اور حوصلے سے کر سکتے ہیں۔‏‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۱۷،‏ ۱۸ کو پڑھیں۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 8 بعض نام تبدیل کر دئے گئے ہیں۔‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۴ پر تصویر]‏

مشکل وقت میں یہوواہ خدا کی طرف سے ملنے والی مدد کے لئے قدر ظاہر کریں۔‏