تعصب سے پاک دُنیا—کیا یہ صرف ایک خواب ہے؟
”میرا ایک خواب ہے۔“ یہ الفاظ امریکہ میں انسانی حقوق کی ایک تنظیم کے رہنما کے ہیں۔ یہ رہنما مارٹن لوتھر کنگ جونیئر تھے جنہوں نے ۲۸ اگست ۱۹۶۳ء کو ایک تقریر میں کہا کہ اُن کا خواب ہے کہ دُنیا تعصب سے پاک ہو جائے اور سب لوگ ملجُل کر رہیں۔ حالانکہ اُنہوں نے یہ تقریر ریاستہائے متحدہ میں پیش کی تھی لیکن اُن کا خواب دُنیا کے بہت سے لوگوں کا خواب بن گیا ہے۔
اِس تقریر کے تین مہینے بعد ۲۰ نومبر ۱۹۶۳ء کو ۱۰۰ سے زیادہ ملکوں نے اقوامِمتحدہ کی ایک قرارداد منظور کی جو ہر قسم کے نسلی تعصب کو ختم کرنے کے لئے پیش کی گئی تھی۔ اِس کے بعد سے اب تک پوری دُنیا میں تعصب کو ختم کرنے کے لئے بہت سی کوششیں کی گئی ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِن سب کوششوں کا نتیجہ کیا نکلا ہے؟
اقوامِمتحدہ کے سیکریٹری جنرل، بان کیمون نے ۲۱ مارچ ۲۰۱۲ء کو کہا: ”نسلپرستی، نسلی اِمتیاز، غیرملکیوں سے نفرت اور تنگنظری کو ختم کرنے کے لئے بہت سی قراردادیں منظور کی گئی ہیں اور اب بھی کی جا رہی ہیں۔ مگر اِن سب کے باوجود لاکھوں لوگ نسلپرستی کا نشانہ بنتے ہیں۔“
بلا شُبہ کچھ ملکوں نے کسی حد تک تعصب پر قابو پا لیا ہے۔ مگر کیا اِن ملکوں میں لوگوں کے دل سے واقعی تعصب مٹ گیا ہے یا کیا وہ بس تعصب کو ظاہر نہیں کرتے؟ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ تعصب کو ختم کرنے کے لئے جو اقدام اُٹھائے جاتے ہیں، اُن سے امتیازی سلوک کو تو روکا جا سکتا ہے لیکن لوگوں کے دل سے تعصب کو ختم نہیں کِیا جا سکتا۔ اِس کی کیا وجہ ہے؟ اِس کی وجہ یہ ہے کہ جب ایک شخص کسی کے ساتھ امتیازی سلوک برتتا ہے تو وہ فوراً نظر میں آ جاتا ہے اور اِس کے لئے اُسے سزا ملتی ہے جبکہ تعصب ایک اندرونی کیفیت ہے جو نظر نہیں آتی اور جس کے لئے کوئی سزا نہیں دی جا سکتی ہے۔
لہٰذا تعصب کو ختم کرنے کے لئے ایسے اقدام اُٹھانے کی ضرورت ہے جن سے نہ صرف لوگوں کو دوسروں کے ساتھ امتیازی سلوک برتنے سے روکا جائے بلکہ اُن کے دلودماغ سے تعصب کو مٹایا بھی جائے۔ مگر کیا واقعی ایسا ہو سکتا ہے؟ آئیں، کچھ لوگوں کی مثالوں پر غور کریں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اپنے دلودماغ سے تعصب کو دُور کرنا ممکن ہے اور ایسا کیسے کِیا جا سکتا ہے۔
پاک کلام کی تعلیم کا اثر
لنڈا: مَیں جنوبی افریقہ میں پیدا ہوئی۔ مَیں اپنے ملک کے اُن سب لوگوں کو پاؤں کی دھول سمجھتی تھی جو گورے نہیں تھے۔ میری نظر میں وہ لوگ جاہل گنوار تھے اور ذرا بھی بھروسے کے لائق نہیں تھے۔ مَیں سوچتی تھی کہ یہ لوگ صرف گورے لوگوں کی خدمت کرنے کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔ چونکہ اِس طرح کی سوچ عام تھی اِس لئے مجھے احساس نہیں تھا کہ میرے دل میں اِتنا تعصب بھرا ہوا ہے۔ لیکن جب مَیں نے پاک کلام کا مطالعہ کرنا شروع کِیا تو میری سوچ بدلنے لگی۔ مَیں نے سیکھا کہ ”خدا کسی کا طرفدار نہیں۔“ اور ہمیں لوگوں کے رنگ یا زبان کی وجہ سے اُن سے تعصب نہیں برتنا چاہئے بلکہ اُن کا دل دیکھنا چاہئے۔ (اعمال ۱۰:۳۴، ۳۵؛ امثال ۱۷:۳) پھر مَیں نے پاک کلام کی ایک آیت سے یہ بھی سیکھا کہ اگر مَیں دوسروں کو خود سے بہتر سمجھوں گی تو مَیں اپنے دل سے تعصب کو دُور کر پاؤں گی۔ (فلپیوں ۲:۳) پاک کلام میں درج ایسے اصولوں سے مَیں نے سیکھا ہے کہ مجھے سب کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا چاہئے، چاہے وہ کسی بھی رنگ کے ہوں۔ مَیں خوش ہوں کہ اب مَیں تعصب کی قید سے آزاد ہو گئی ہوں۔
مائیکل: مَیں آسٹریلیا کے ایک ایسے علاقے میں پلا بڑھا جہاں زیادہتر گورے لوگ رہتے تھے۔ اِس وجہ سے میرے دل میں ایشیائی لوگوں کے لئے تعصب بھرا
تھا۔ مجھے خاص طور پر چینی لوگ بُرے لگتے تھے۔ گاڑی چلاتے وقت اگر مجھے کوئی ایشیائی نظر آتا تو مَیں اپنی گاڑی کا شیشہ نیچے کرکے اُس پر ایسے جملے کستا: ”اوئے! اپنے ملک جا!“ لیکن جب مَیں نے پاک کلام کا مطالعہ کرنا شروع کِیا تو مَیں نے سیکھا کہ خدا ہر شخص سے پیار کرتا ہے، چاہے وہ کسی بھی ملک کا ہو۔ اِس بات نے میرے دل کو چُھو لیا اور ایشیائی لوگوں کے لئے میری نفرت محبت میں بدل گئی۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ مَیں اِتنا بدل گیا ہوں۔ اب مجھے مختلف ملکوں اور پسمنظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ساتھ دوستی کرنا بہت اچھا لگتا ہے۔ اِن لوگوں کے ساتھ میلجول رکھنے سے مَیں نے بہت کچھ سیکھا ہے اور اب مَیں پہلے سے زیادہ خوش ہوں۔سینڈرا: میری امی نائجیریا کی ریاست ڈیلٹا سے تھیں۔ اور میرے ابو کا خاندان نائجیریا کی ریاست اِیڈو سے ہے اور وہ ایسن زبان بولتے ہیں۔ چونکہ میری امی کا تعلق ایک فرق علاقے سے تھا اور وہ فرق زبان بولتی تھیں اِس لئے اُنہیں مرتے دم تک اپنے سُسرالیوں کی طرف سے تعصب کا سامنا کرنا پڑا۔ اِس وجہ سے مَیں نے خود سے عہد کِیا تھا کہ مَیں ایسن زبان بولنے والوں سے کوئی تعلق نہیں رکھوں گی اور کبھی ریاست اِیڈو کے کسی آدمی سے شادی نہیں کروں گی۔ لیکن جب مَیں نے پاک کلام کا مطالعہ کرنا شروع کِیا تو میرا نظریہ بدل گیا۔ مَیں نے پاک کلام میں پڑھا کہ خدا کسی کا طرفدار نہیں ہے اور وہ ہر اُس شخص کو پسند کرتا ہے جو اُس سے ڈرتا ہے۔ یہ پڑھ کر مَیں نے سوچا کہ بھلا مَیں کون ہوتی ہوں جو کسی دوسرے علاقے یا دوسری زبان بولنے والے شخص سے نفرت کروں؟ مَیں نے اپنی سوچ بدل لی اور اپنے ددھیال والوں سے صلح کر لی۔ پاک کلام کے اصولوں پر عمل کرنے سے مجھے خوشی اور ذہنی سکون ملا ہے۔ اب مَیں سب لوگوں کے ساتھ پیار محبت سے رہتی ہوں، چاہے اُن کا تعلق کسی بھی پسمنظر، نسل، زبان یا قوم سے ہو۔ اور پتہ ہے کیا، جس آدمی سے میری شادی ہوئی ہے، وہ ریاست ایڈو سے ہے اور ایسن زبان بولتا ہے۔
اِن لوگوں کی طرح اَور بھی بہت سے لوگوں نے پاک کلام کی تعلیم سے متاثر ہو کر اپنے دل سے تعصب کو نکال دیا ہے۔ اِس کی کیا وجہ ہے؟ اِس کی وجہ یہ ہے کہ پاک کلام میں لکھی باتیں خدا کی طرف سے ہیں اور اِس لئے یہ کسی بھی شخص کی
سوچ اور احساسات کو بدل سکتی ہیں۔ اِس کے علاوہ پاک کلام میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ تعصب کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لئے اَور کیا ضروری ہے۔تعصب کا خاتمہ
سچ ہے کہ پاک کلام کا علم دلوں سے نفرت کو ختم کر سکتا ہے لیکن تعصب کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لئے دو اَور باتوں کا ختم ہونا ضروری ہے۔ یہ کونسی باتیں ہیں؟ پہلی بات یہ ہے کہ ہم سب میں گُناہ بسا ہوا ہے۔ پاک کلام میں لکھا ہے: ”کوئی ایسا آدمی نہیں جو گُناہ نہ کرتا ہو۔“ (۱-سلاطین ۸:۴۶) اِسی لئے ہمیں اپنے دل سے تعصب کو ختم کرنا مشکل لگتا ہے۔ شاید ہم بھی یسوع مسیح کے شاگرد پولس کی طرح محسوس کریں جنہوں نے کہا: ”جب نیکی کا اِرادہ کرتا ہوں تو بدی میرے پاس آ موجود ہوتی ہے۔“ (رومیوں ۷:۲۱) لہٰذا نہ چاہتے ہوئے بھی کبھیکبھار ہمارے دل میں دوسروں کے لئے ”بُرے خیال“ آ جاتے ہیں جس کی وجہ سے ہم تعصب کرنے کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔—مرقس ۷:۲۱۔
دوسری بات یہ ہے کہ اِس دُنیا پر شیطان کا اثر ہے۔ پاک کلام میں شیطان کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ ”خونی“ ہے اور ”سارے جہان کو گمراہ کر دیتا ہے۔“ (یوحنا ۸:۴۴؛ مکاشفہ ۱۲:۹) اِس سے پتہ چلتا ہے کہ دُنیا میں اِتنا تعصب کیوں پھیلا ہوا ہے اور انسان تنگنظری، امتیازی سلوک، نسلکُشی اور مذہبی اور معاشرتی تعصب کو ختم کرنے میں ناکام کیوں ہیں۔
لہٰذا تعصب کو جڑ سے اُکھاڑنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اُس گُناہ کو مٹایا جائے جو انسانوں کے اندر بسا ہے اور دُنیا سے شیطان کا اثر بالکل ختم کر دیا جائے۔ پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ یہ کام خدا کی بادشاہت کے ذریعے کئے جائیں گے۔
یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ وہ خدا سے یہ دُعا کریں: ”تیری بادشاہی آئے۔ تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو۔“ (متی ۶:۱۰) جب خدا کی بادشاہت زمین پر حکمرانی کرے گی تو وہ دُنیا سے ہر طرح کی ناانصافی اور تعصب کو ختم کر دے گی۔
خدا کی بادشاہت کے تحت شیطان کو ’باندھ‘ دیا جائے گا تاکہ وہ ”قوموں کو پھر گمراہ نہ کرے۔“ (مکاشفہ ۲۰:۲، ۳) پھر ”نئی زمین“ یعنی نیا انسانی معاشرہ ہوگا جس میں ”راستبازی بسی رہے گی۔“ *—۲-پطرس ۳:۱۳۔
جو لوگ نئے انسانی معاشرے میں رہیں گے، خدا اُن کو گُناہ سے پا ک کر دے گا۔ (رومیوں ۸:۲۱) خدا کی بادشاہت کی رعایا کے طور پر وہ کسی کو ”نہ ضرر پہنچائیں گے نہ ہلاک کریں گے۔“ ایسا کیوں ہوگا؟ کیونکہ ”زمین [یہوواہ] کے عرفان سے معمور ہوگی۔“ (یسعیاہ ۱۱:۹) اُس وقت سب انسان یہوواہ خدا کی خوبیوں کے بارے میں سیکھیں گے اور اِن خوبیوں کو اپنے اندر پیدا کریں گے۔ تب واقعی تعصب کا نامونشان مٹ جائے گا کیونکہ ”خدا کے ہاں کسی کی طرفداری نہیں۔“—رومیوں ۲:۱۱۔
^ پیراگراف 17 خدا کی بادشاہت کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب پاک صحائف کی تعلیم حاصل کریں کے باب نمبر ۳، ۸اور ۹ کو دیکھیں۔ (یہ کتاب یہوواہ کے گواہوں نے شائع کی ہے۔)