اِن جیسا ایمان پیدا کریں | نوح
خدا نے نوح اور ’سات اَور لوگوں کو بچا لیا‘
ذرا اِس منظر کو تصور کی آنکھ سے دیکھیں: نوح اور اُن کی گھر والے کشتی میں ایک دوسرے کے قریب بیٹھے ہیں۔ باہر موسلادھار بارش ہو رہی ہے۔ بارش بڑی زور سے کشتی پر پڑ رہی ہے جس کی وجہ سے بہت شور ہو رہا ہے۔ نوح اور اُن کے گھر والے چپچاپ بیٹھے ایک دوسرے کی طرف حیرانی سے دیکھ رہے ہیں۔
نوح اپنی بیوی، بیٹوں اور بہوؤں کو دیکھ رہے ہیں جنہوں نے کشتی بنانے میں اُن کا بڑا ساتھ دیا۔ نوح بہت خوش ہیں کہ وہ سب صحیحسلامت کشتی میں اُن کے ساتھ ہیں۔ بِلاشُبہ نوح نے اپنے گھر والوں کے ساتھ خدا کا شکر ادا کِیا ہوگا۔
نوح خدا پر بہت مضبوط ایمان رکھتے تھے۔ اِسی وجہ سے یہوواہ خدا اُن کو اور اُن کے گھر والوں کو طوفان سے بچانا چاہتا تھا۔ (عبرانیوں 11:7) طوفان کے آنے سے پہلے نوح کو بہت ساری مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اپنے مضبوط ایمان کی وجہ سے وہ اِن سے نپٹ سکے۔ مگر اب طوفان شروع ہونے کے بعد بھی اُن کو اپنے ایمان کو مضبوط رکھنا تھا تاکہ وہ آنے والی مشکلوں کا سامنا بھی کر سکیں۔ ہم بھی ایک ایسے دَور میں رہتے ہیں جو مشکلات سے بھرا ہے۔ اِن مشکلات کا سامنا کرنے کے لئے ہمیں بھی مضبوط ایمان کی ضرورت ہے۔ آئیں، دیکھتے ہیں کہ اِس سلسلے میں ہم نوح سے کیا سیکھ سکتے ہیں۔
”چالیس دن اور چالیس رات“
”چالیس دن اور چالیس رات“ تک بہت تیز بارش ہوتی رہی۔ (پیدایش 7:4، 11، 12) پوری زمین پر پانی چڑھتا رہا۔ نوح دیکھ سکتے تھے کہ یہوواہ خدا اپنے بندوں کو اِس خوفناک طوفان سے بچا رہا ہے لیکن وہ بُرے لوگوں کو سزا دے رہا ہے۔
طوفان سے بہت عرصہ پہلے شیطان کی طرح کچھ اَور فرشتوں نے بھی خدا کے خلاف بغاوت کی تھی۔ لیکن طوفان کے ذریعے خدا نے اِس بغاوت کو کچل دیا۔ ہوا یہ تھا کہ کچھ فرشتے آسمان پر اپنے ”خاص مقام کو چھوڑ کر“ زمین پر آ گئے تھے اور اُنہوں نے اِنسانی جسم اپنا کر عورتوں سے شادی کر لی تھی۔ اِن فرشتوں اور عورتوں سے جو اولاد پیدا ہوئی، وہ بہت طاقتور اور قدآور تھی اور اِنسانوں پر بہت ظلم کرتی تھی۔ (یہوداہ 6؛ پیدایش 6:4) شیطان یہ سب دیکھ کر یقیناً بہت خوش تھا کیونکہ اِس بغاوت کی وجہ سے زمین پر خدا کی سب سے بہترین مخلوق یعنی اِنسان اَور بھی زیادہ بُرائی میں پڑ گئے تھے۔
پھر جب طوفان کی وجہ سے پوری زمین پر پانی چڑھنے لگا تو اِن بُرے فرشتوں کو اپنے اِنسانی جسم چھوڑنے پڑے اور آسمان پر واپس جانا پڑا۔ اِس کے بعد وہ پھر کبھی اِنسانی روپ نہیں دھار سکے۔ وہ زمین پر اپنے بیویبچوں کو طوفان میں مرنے کے لئے چھوڑ گئے۔
طوفان سے تقریباً 700 سال پہلے خدا نے اپنے بندے حنوک کے ذریعے لوگوں کو بتایا تھا کہ وہ بُرے لوگوں کو ہلاک کر دے گا۔ (پیدایش 5:24؛ یہوداہ 14، 15) لیکن 700 سال کے عرصے میں لوگ اَور بھی زیادہ بُرے کام کرنے لگے یہاں تک کہ زمین پر ہر طرف ظلم اور تشدد پھیل گیا۔ مگر اب سب بُرے لوگ طوفان میں ہلاک ہو رہے تھے۔ کیا نوح اور اُن کے گھر والے اِس بات پر خوش ہوئے؟
جینہیں۔ اور نہ ہی خدا اِس بات پر خوش تھا۔ (حزقیایل 33:11) یہوواہ خدا چاہتا تھا کہ یہ لوگ اپنی جان بچا لیں۔ اِسی وجہ سے اُس نے حنوک کے ذریعے اِن لوگوں کو آگاہ کِیا۔ اِس کے علاوہ اُس نے نوح کو کشتی بنانے کا حکم دیا اور نوح اور اُن کے گھر والے یہ کشتی کئی سال تک سب لوگوں کے سامنے بناتے رہے۔ اِس کے ساتھساتھ نوح خدا کے حکم سے ’راستبازی کی مُنادی‘ کرتے رہے یعنی لوگوں کو بُرے کاموں سے باز آنے کو کہتے رہے۔ (2-پطرس 2:5) حنوک کی طرح نوح نے بھی لوگوں کو آگاہ کِیا کہ خدا بُرے لوگوں کو ہلاک کرنے والا ہے۔ لیکن کیا لوگوں نے اِس پیغام پر کوئی توجہ دی؟ اِس بارے میں یسوع مسیح نے بتایا کہ یہ لوگ اُس وقت تک ’بےفکر رہے جب تک طوفان اُن سب کو بہا کر نہ لے گیا۔‘—متی 24:39، کیتھولک ترجمہ۔
ذرا سوچیں کہ بارش شروع ہونے کے بعد نوح اور اُن کے گھر والے کشتی میں کیا کرتے ہوں گے؟ بِلاشُبہ وہ روزمرہ کاموں میں مصروف ہو گئے ہوں گے جیسے کہ کھانا تیار کرنا، صفائیستھرائی کرنا اور جانوروں کی دیکھبھال کرنا۔ لیکن پھر ایک دن اچانک اُنہوں نے محسوس کِیا ہوگا کہ کشتی آہستہآہستہ ہل رہی ہے۔ یقیناً کئی دنوں تک بارش ہونے کی وجہ سے زمین پر بہت زیادہ پانی چڑ ھ گیا ہوگا جس کی وجہ سے ”کشتی زمین پر سے اُٹھ گئی۔“ (پیدایش 7:17) اِس واقعے سے ظاہر ہو گیا کہ قادرِمطلق خدا کے لئے سب کچھ ممکن ہے۔
نوح یقیناً خدا کے احسانمند تھے کہ اُس نے اُن کی اور اُن کے گھر والوں کی جان بچائی اور اِس کے ساتھساتھ اُنہیں موقع دیا کہ وہ دوسرے لوگوں کو طوفان کے بارے میں آگاہ کر سکیں۔ شاید نوح اور اُن کے گھر والوں کو کبھیکبھار لگا ہو کہ لوگوں کو طوفان کے بارے میں بتانے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ کوئی بھی شخص اُن کی بات پر توجہ نہیں دے رہا۔ ہو سکتا ہے کہ نوح کے بھائی، بہنیں اور بھتیجے بھتیجیاں بھی طوفان سے پہلے زندہ ہوں۔ لیکن اِن میں سے بھی کسی نے نوح کی بات نہیں سنی۔ (پیدایش 5:30) کشتی میں نوح اور اُن کے گھر والوں کو کمازکم اِس بات کی تسلی تھی کہ اُنہوں نے اپنی طرف سے لوگوں کی جان بچانے کی پوری کوشش کی۔
یسوع مسیح نے بتایا تھا کہ ہمارا زمانہ بھی ”نوؔح کے دنوں“ جیسا ہوگا۔ (متی 24:37) ہم بھی ایک ایسے دَور میں رہتے ہیں جس میں ہر طرف بُرائی پھیلی ہوئی ہے اور خدا بہت جلد اِس بُرائی کو ختم کرنے والا ہے۔ یہوواہ لاتبدیل خدا ہے۔ وہ آج بھی ویسا ہی ہے جیسا وہ نوح کے زمانے میں تھا۔ (ملاکی 3:6) وہ آج بھی اپنے بندوں کے ذریعے لوگوں کو آنے والی تباہی سے آگاہ کر رہا ہے۔ کیا آپ اِس آگاہی پر دھیان دے رہے ہیں؟ اگر آپ نے ایسا کِیا ہے تو کیا آپ دوسروں کو بھی اِس کے بارے میں بتا رہے ہیں؟ اِس سلسلے میں نوح اور اُن کے گھر والوں نے ہمارے لئے بہت اچھی مثال قائم کی۔
”پانی سے صحیحسلامت بچ نکلے“
جب کشتی پانی پر تیر رہی تھی اور اُونچی اُونچی لہریں اُس سے ٹکرا رہی تھیں تو یقیناً نوح اور اُن کے گھر والوں کو لکڑی کی چیںچیں اور کڑکڑ کی آوازیں سنائی دے رہی ہوں گی۔ کیا اِس سے نوح کو لگا کہ کشتی ٹوٹ جائے گی؟ جینہیں کیونکہ نوح کا ایمان بہت مضبوط تھا۔ پاک کلام میں لکھا ہے کہ ”ایمان ہی کے سبب سے نوؔح نے کشتی بنائی۔“ (عبرانیوں 11:7) نوح کس بات پر ایمان رکھتے تھے؟ دراصل یہوواہ خدا نے نوح سے وعدہ کِیا تھا کہ جو جاندار کشتی میں ہوں گے، وہ سب طوفان سے بچ جائیں گے۔ (پیدایش 6:18، 19) بِلاشُبہ کائنات کے خالق کے لئے کشتی کی حفاظت کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ اور نوح کو پورا یقین تھا کہ خدا کشتی کو ٹوٹنے نہیں دے گا۔ اور خدا کے وعدے کے مطابق نوح اور اُن کے گھر والے ”پانی سے صحیحسلامت بچ نکلے۔“—1-پطرس 3:20، نیو اُردو بائبل ورشن۔
چالیس دن کے بعد بارش رُک گئی۔ ہمارے کیلنڈر کے مطابق یہ دسمبر 2370 قبلازمسیح کا وقت تھا۔ لیکن نوح اور اُن کے گھر والوں کو ابھی بھی چند مہینے تک کشتی میں ہی رہنا تھا کیونکہ زمین پر ہر طرف پانی تھا۔ یہاں تک کہ سب پہاڑوں کی چوٹیاں بھی ڈوبی ہوئی تھیں۔ (پیدایش 7:19، 20) یقیناً اِس عرصے کے دوران نوح اپنے بیٹوں سم، حام اور یافت کے ساتھ مل کر جانوروں کو چارا ڈالتے ہوں گے اور اُن کی صاف صفائی کرتے ہوں گے۔ خدا نے اِن جانوروں کو قابو میں کرکے کشتی میں بھیجا تھا اور بےشک اُس نے کشتی کے اندر بھی اِن کو قابو میں رکھا ہوگا۔ *
بِلاشُبہ نوح نے اِن تمام واقعات کی تاریخوں کا ریکارڈ رکھا۔ اِس ریکارڈ سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ بارش کب شروع ہوئی اور کب رُکی اور پوری زمین 150 دن تک پانی میں ڈوبی رہی۔ پھر زمین پر پانی کم ہونا شروع ہو گیا۔ اور ایک دن کشتی ”اؔراراط کے پہاڑوں پر“ ٹک گئی جو موجودہ ترکی میں ہیں۔ یہ تقریباً اپریل 2369 قبلازمسیح کا وقت تھا۔ اِس کے 73 دن بعد یعنی جون کے مہینے میں پانی کافی حد تک اُتر گیا اور پہاڑوں کی چوٹیاں نظر آنے لگیں۔ اِس کے تین مہینے بعد یعنی ستمبر میں نوح نے کشتی کی چھت کا کچھ حصہ ہٹا دیا۔ ذرا سوچیں کہ جب باہر سے روشنی اور تازہ ہوا اندر آئی ہوگی تو نوح اور اُن کے گھر والے کتنے خوش ہوئے ہوں گے۔ لیکن اِس سے کچھ دن پہلے نوح نے یہ جاننے کے لئے کہ آیا زمین سے پانی اُتر گیا ہے یا نہیں، ایک کوّے کو کشتی سے اُڑایا۔ یہ کوّا اُڑ کر کچھ دُور جاتا تھا اور واپس آ کر کشتی پر بیٹھ جاتا تھا۔ پھر ایک دن نوح نے ایک کبوتری کو اُڑایا۔ یہ کبوتری تب تک کشتی میں واپس آتی رہی جب تک اُسے باہر گھونسلا بنانے کی جگہ نہیں مل گئی۔—پیدایش 7:24–8:13۔
نوح یقیناً باقی کاموں کی نسبت خدا کی عبادت کو زیادہ اہمیت دیتے ہوں گے۔ وہ اور اُن کے گھر والے مل کر خدا سے دُعا کرتے ہوں گے اور اُس کے بارے میں بات کرتے ہوں گے۔ نوح یہوواہ خدا کی رہنمائی کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرتے تھے۔ مثال کے طور پر نوح تقریباً ایک سال سے کشتی میں تھے اور جب اُنہوں نے دیکھا کہ ”زمین بالکل سُوکھ“ گئی ہے تو وہ تب بھی کشتی میں ہی رہے۔ وہ فوراً کشتی کا دروازہ کھول کر سب جانداروں کو باہر نہیں لے آئے۔ (پیدایش 8:14) اُنہوں نے ایسا تب کِیا جب یہوواہ خدا نے اُن کو ایسا کرنے کو کہا۔
شوہر اور والد نوح سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ نوح ہر کام بڑے منظم طریقے سے کرتے تھے۔ وہ بہت محنتی تھے اور صبر سے کام لیتے تھے۔ وہ اپنے گھر والوں کا بھی بہت خیال رکھتے تھے۔ سب سے بڑھ کر وہ ہر معاملے میں پہلے خدا کی مرضی جاننا چاہتے تھے۔ اگر ہم نوح کی مثال پر عمل کریں گے تو اِس سے ہمیں اور ہمارے گھر والوں کو بہت سی برکتیں ملیں گی۔
”کشتی سے باہر نکل آ“
پھر ایک دن خدا نے نوح سے کہا: ”کشتی سے باہر نکل آ۔ تُو اور تیرے ساتھ تیری بیوی اور تیرے بیٹے اور تیرے بیٹوں کی بیویاں۔“ اِس پر نوح، اُن کے گھر والے اور سب جانور کشتی سے باہر نکل آئے۔ لیکن کیا سب جانور بڑی افراتفری سے باہر نکلے؟ جینہیں۔ پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ سب جانور اپنیاپنی قسم کے جانوروں کے ساتھ کشتی سے باہر آئے۔ (پیدایش 8:15-19) ذرا تصور کریں کہ نوح اور اُن کے گھر والے اراراط کے پہاڑوں پر کھڑے ہیں اور تازہ ہوا میں سانس لے رہے ہیں۔ وہ یہ دیکھ کر کتنے خوش ہوئے ہوں گے کہ اب زمین پر نہ تو بُرے فرشتے ہیں اور نہ ہی اُن کی اولاد اور نہ ہی ایسے لوگ جو دوسروں پر ظلم کریں۔ *اب نوح اور اُن کے گھر والے اِنسانوں کی تاریخ کا ایک نیا باب شروع کر سکتے تھے۔
پیدایش 7:2؛ 8:20) کیا یہوواہ خدا اِن قربانیوں سے خوش ہوا؟
کشتی سے باہر آنے کے بعد نوح نے سب سے پہلے ایک قربانگاہ بنائی اور اُس پر ایسے جانوروں کی قربانیاں چڑھائیں جو خدا کی نظر میں پاک تھے۔ (جیہاں۔ پاک کلام میں لکھا ہے: ”[یہوواہ] نے اُن کی راحتانگیز خوشبو لی۔“ طوفان سے پہلے اِنسانوں نے پوری زمین پر ظلموتشدد پھیلایا ہوا تھا اور اِس وجہ سے یہوواہ خدا بہت دُکھی تھا۔ لیکن اب زمین پر صرف ایسے اِنسان تھے جنہوں نے عزم کِیا تھا کہ وہ خدا کی مرضی کے مطابق زندگی گزاریں گے۔ اِن لوگوں کو دیکھ کر یہوواہ خدا کو بڑی راحت اور خوشی ملی۔ لیکن خدا اِن لوگوں سے یہ توقع نہیں کرتا تھا کہ وہ کبھی غلطی نہیں کریں گے۔ نوح نے جو قربانی چڑھائی، اُس پر خوشی کا اِظہار کرنے کے فوراً بعد خدا نے کہا کہ ”اِنسان کے دل کا خیال لڑکپن سے بُرا ہے۔“ (پیدایش 8:21) آئیں، دیکھتے ہیں کہ طوفان کے بعد خدا نے اِنسانوں پر اَور کن طریقوں سے رحم کِیا۔
جب آدم اور حوا نے خدا کا حکم توڑا تھا تو خدا نے زمین پر لعنت کی تھی جس کی وجہ سے اِس پر اناج اُگانا بہت مشکل ہو گیا تھا۔ لیکن طوفان کے بعد خدا نے اِس لعنت کو ہٹا دیا۔ نوح کے والد لمک نے نوح کے بارے میں پیشگوئی کی تھی کہ وہ لوگوں کو وہ آرام پہنچائیں گے جو زمین کے لعنتی ہونے کی وجہ سے اِنسانوں سے چھن گیا تھا۔ اور اِسی وجہ سے اُنہوں نے اپنے بیٹے کا نام نوح رکھا جس کا مطلب شاید آرام یا تسلی ہے۔ نوح یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے ہوں گے کہ اُن کے والد کی پیشگوئی پوری ہو گئی ہے اور اب زمین پر آسانی سے اناج اُگایا جا سکتا ہے۔ اِسی لئے اُنہوں نے جلد ہی کھیتیباڑی شروع کر دی۔—پیدایش 3:17، 18؛ 5:28، 29؛ 9:20۔
خدا نے نوح اور اُن کی اولاد کو کچھ حکم بھی دئے۔ اِن میں خون کا غلط اِستعمال نہ کرنے اور قتل نہ کرنے کا حکم بھی شامل تھا۔ اِس کے علاوہ خدا نے نوح اور اُن کی اولاد سے وعدہ کِیا کہ وہ تمام جانداروں کو پانی سے دوبارہ ہلاک نہیں کرے گا۔ خدا نے اِس وعدے کی تصدیق کے لئے اُن کو ایک نشان بھی دِکھایا۔ یہ نشان آسمان پر رنگبرنگی دھنک تھی۔ آج بھی دھنک کو دیکھ کر ہم خدا کے وعدے کو یاد کر سکتے ہیں۔—پیدایش 9:1-17۔
بعض لوگوں کو لگتا ہے کہ نوح کا واقعہ محض ایک کہانی ہے۔ لیکن اگر ایسا ہوتا تو یہ کہانی اُس وقت مکمل ہو جاتی جب خدا نے نوح اور اُن کے گھر والوں کو دھنک دِکھائی تھی۔ مگر طوفان کے بعد نوح 350 سال تک زندہ رہے اور اِس عرصے میں اُن کو بہت سے دُکھوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک بار نوح سے ایک بہت بڑی غلطی ہو گئی جس کی وجہ سے اُنہیں کافی دُکھ اُٹھانا پڑا۔ اور اُن کے پوتے کنعان نے بھی ایک ایسی غلطی کی جس کی وجہ سے کنعان کی پوری اولاد کو بہت سی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ نوح، نمرود کے زمانے تک زندہ رہے جب اِنسان بُتپرستی میں پڑ گئے تھے اور ظلموتشدد کرنے لگے تھے۔ لیکن اِس عرصے کے دوران نوح کے بیٹے سم خدا کے وفادار رہے اور یوں اُنہوں نے اپنے خاندان کے لئے بڑی اچھی مثال قائم کی۔ یہ دیکھ کر یقیناً نوح کو بڑی خوشی ہوئی ہوگی۔—پیدایش 9:21-28؛ 10:8-11؛ 11:1-11۔
نوح کی طرح ہمیں بھی مشکل وقت میں خدا پر مضبوط ایمان رکھنا چاہئے۔ چاہے دوسرے لوگ خدا کے حکموں کو نظرانداز کریں یا اُس کی عبادت کرنا چھوڑ دیں، ہمیں نوح کی طرح خدا کے وفادار رہنا چاہئے۔ یہوواہ خدا اُن لوگوں سے بہت پیار کرتا ہے جو مشکلات کے باوجود اُس کے وفادار رہتے ہیں۔ یسوع مسیح نے کہا تھا کہ ”جو آخر تک قائم رہے گا، وہ نجات پائے گا۔“—متی 24:13، کیتھولک ترجمہ۔
^ پیراگراف 17 بعض لوگوں کا خیال ہے کہ خدا نے اِن جانوروں کو نیند کی حالت میں رکھا تھا اور اِس وجہ سے اُن کو زیادہ بھوک نہیں لگتی تھی۔ ہم نہیں جانتے کہ خدا نے ایسا کِیا تھا یا نہیں، مگر ہم اِتنا ضرور جانتے ہیں کہ اُس نے اپنے وعدے کے مطابق کشتی پر سوار جانداروں کی حفاظت کی تھی۔
^ پیراگراف 22 طوفان میں باغِعدن کا نامونشان بھی مکمل طور پر مٹ گیا ہوگا۔ اِس صورت میں وہ فرشتے بھی آسمان پر واپس چلے گئے ہوں گے جو تقریباً 1600 سال سے باغِعدن کے داخلی راستے پر کھڑے تھے تاکہ کوئی اِس کے اندر نہ جا سکے۔—پیدایش 3:22-24۔