اِن جیسا ایمان پیدا کریں
وہ نااِنصافی کے باوجود ثابتقدم رہے
ذرا اِس منظر کا تصور کریں: ایلیاہ نبی یردن کی وادی سے گزر رہے ہیں۔ وہ کئی ہفتوں سے کوہِحورب سے جنوب کی طرف سفر کر رہے ہیں۔ اب آخرکار وہ ملک اِسرائیل پہنچ گئے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ اُن کا وطن کتنا بدل گیا ہے۔ ملک اِسرائیل پچھلے کچھ سالوں سے خشکسالی کا شکار تھا۔ لیکن اب خشکسالی کے اثرات ماند پڑ رہے ہیں۔ خزاں کی بارشیں شروع ہو گئی ہیں اور کسان اپنے کھیتوں میں ہل جوت رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر ایلیاہ کے دل کو بڑی تسلی ملی ہے کہ اب اُن کے وطن کی زمین پھر سے پیداوار دینے کے قابل ہو گئی ہے۔ زمین کی اچھی حالت کو دیکھ کر تو ایلیاہ کو خوشی ہوئی ہے لیکن لوگوں کی روحانی حالت کی وجہ سے وہ ابھی بھی پریشان ہیں۔ اُن کے ملک کے لوگ ابھی بھی بعل کی پوجا کر رہے ہیں۔ اِن لوگوں کو سچے خدا یہوواہ کے قریب لانے کے لیے ایلیاہ کو بہت محنت کرنی ہے۔ *
اب ایلیاہ ابیلمحولہ نامی قصبے کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ وہاں وہ دیکھ رہے ہیں کہ بہت بڑے پیمانے پر ہل جوتا جا رہا ہے۔ اِس کے لیے بیلوں کی 12 جوڑیوں کو اِستعمال کِیا جا رہا ہے۔ جو آدمی سب سے پچھلی جوڑی کو چلا رہا ہے، ایلیاہ اُسی کو ڈھونڈ رہے تھے۔ اِس آدمی کا نام اِلیشع ہے اور یہوواہ خدا نے اِسے ایلیاہ کے جانشین کے طور پر چنا ہے۔ ایک وقت تھا جب ایلیاہ کو لگا کہ صرف وہی اکیلے بچے ہیں جو یہوواہ خدا کی عبادت کر رہے ہیں۔ لیکن یہ جان کر کہ اِلیشع بھی یہوواہ خدا کی عبادت کرتے ہیں، ایلیاہ اُن سے ملنے کو بےتاب ہیں۔—1-سلاطین 18:22؛ 19:14-19۔
لیکن کیا ایلیاہ اِس بات سے ہچکچا بھی رہے ہیں کہ اب اُنہیں کسی اَور شخص کو اپنی کچھ ذمےداریاں دینی پڑیں گی؟ یا کیا وہ اِس بات سے ڈر رہے ہیں کہ اب اُن کا شرف کسی اَور کو مل جائے گا یا کوئی اَور اُن کی جگہ نبی بن جائے گا؟ اِس بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی ہم یقین سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ اُن کے ذہن میں ایسی کوئی بات نہیں آئی ہوگی۔ آخرکار ایلیاہ ’ہمارے ہمطبیعت اِنسان تھے۔‘ (یعقوب 5:17) اِس معاملے کے بارے میں ایلیاہ کے احساسات چاہے کچھ بھی ہوں، پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ ”ایلیاؔہ [اِلیشع] کے برابر سے گذرا اور اپنی چادر اُس پر ڈال دی۔“ (1-سلاطین 19:19) ایلیاہ کی چادر غالباً بھیڑ یا بکری کی کھال کی بنی تھی اور اِس بات کا نشان تھی کہ ایلیاہ کو خدا نے ایک خاص کام کے لیے چنا ہے۔ ایلیاہ کا اِلیشع پر اپنی چادر ڈالنا اِس بات کا نشان تھا کہ اب اِلیشع، ایلیاہ کی ذمےداری پوری کریں گے۔ ایلیاہ نے خوشی سے یہوواہ خدا کا حکم مانا اور اِلیشع کو اپنا جانشین مقرر کِیا۔ اِس طرح ایلیاہ نے خدا پر بھروسا ظاہر کِیا۔
اِلیشع، ایلیاہ کی مدد کرنا چاہتے تھے جو عمر میں اُن سے کافی بڑے تھے۔ اِلیشع فوراً ایلیاہ کی جگہ نبی نہیں بن گئے۔ وہ چھ سال تک بڑی خاکساری سے ایلیاہ نبی کے ساتھ رہے اور اُن کی خدمت کی۔ بعد میں اِلیشع اِس بات کے لیے جانے جاتے تھے کہ وہ ’ایلیاہ کے ہاتھ پر پانی ڈالتے تھے۔‘ (2-سلاطین 3:11) ایلیاہ کے لیے ایسے قابل اور مددگار خادم کا ساتھ کتنا تسلیبخش تھا! یہ دونوں یقیناً ایک دوسرے کے بہت اچھے دوست بن گئے ہوں گے۔ ایک دوسرے کی حوصلہافزائی کی وجہ سے یقیناً یہ دونوں ملک میں پھیلی نااِنصافی کو برداشت کرنے کے قابل ہوئے ہوں گے۔ اُنہیں ایک دوسرے کی حوصلہافزائی کی خاص طور پر اِس لیے ضرورت تھی کیونکہ اُس زمانے میں بادشاہ اخیاب کے کام بد سے بدتر ہوتے جا رہے تھے۔
کیا آپ کو کبھی نااِنصافی کا سامنا کرنا پڑا ہے؟ اِس بُری دُنیا میں بہت سے لوگ نااِنصافی کا شکار ہوئے ہیں۔ لیکن اگر آپ کا کوئی ایسا دوست ہے جو خدا سے پیار کرتا ہے تو آپ نااِنصافی کو برداشت کرنے قابل ہو سکتے ہیں۔ اِس کے علاوہ آپ ایلیاہ نبی سے بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں جو نااِنصافی کے باوجود خدا کے وفادار رہے۔
’اُٹھ اور اخیاب سے ملنے کو جا‘
ایلیاہ اور اِلیشع نے لوگوں کو خدا کی قربت میں لانے کے لیے بڑی محنت کی۔ ہو سکتا ہے کہ اُنہوں نے تربیتی مرکزوں میں دوسرے نبیوں کو تربیت دینے میں پیشوائی کی ہو۔ پھر کچھ عرصے بعد یہوواہ خدا نے ایلیاہ کو ایک نیا کام سونپا۔ اُس نے ایلیاہ سے کہا: ”اُٹھ اور شاہِاؔسرائیل اخیاؔب سے . . . ملنے کو جا۔“ (1-سلاطین 21:18) لیکن خدا نے ایلیاہ کو اخیاب کے پاس کیوں بھیجا؟
بادشاہ اخیاب خدا سے برگشتہ ہو چُکا تھا۔ وہ اُن بادشاہوں سے بھی بُرا نکلا جو اُس سے پہلے اِسرائیل پر حکومت کرتے تھے۔ اُس نے اِیزِبل سے شادی کی اور ملک میں بعل کی پرستش کو پروان چڑھایا۔ وہ خود بھی بعل کی پوجا کرنے لگا۔ (1-سلاطین 16:31-33) بعل کی پرستش میں باروری کے لئے رسومات، بدکاری حتیٰ کہ بچوں کی قربانی بھی شامل تھی۔ اِس کے علاوہ یہوواہ خدا نے اخیاب کو ملک ارام کے بادشاہ بِن ہدد کو مارنے کا حکم دیا تھا جو کہ اخیاب نے نہیں مانا۔ شاید اُس نے مالودولت حاصل کرنے کی غرض سے بِن ہدد کو زندہ چھوڑ دیا تھا۔ (1-سلاطین 20 باب) اب اخیاب اور اِیزِبل کا لالچ، مالودولت کی چاہ اور ظلم اِنتہا کو پہنچ گیا تھا۔
اخیاب کا سامریہ نامی شہر میں ایک محل تھا جو کہ بےاِنتہا بڑا تھا۔ اِس محل سے تقریباً 37 کلومیٹر (23 میل) کی دُوری پر شہر یزرعیل میں بھی اُس کا ایک محل تھا۔ اِس محل کے برابر میں ایک تاکستان تھا۔ اخیاب کی شدید خواہش تھی کہ وہ اِس تاکستان کو اپنے محل کا حصہ بنا لے۔ یہ تاکستان نبوت نامی آدمی کا تھا۔ اخیاب نے نبوت کو اپنے پاس بلایا اور اُنہیں اِس تاکستان کی قیمت یا اِس کے بدلے دوسرا تاکستان دینے کی پیشکش کی۔ لیکن نبوت نے اخیاب سے کہا: ”[یہوواہ] مجھ سے ایسا نہ کرائے کہ مَیں تجھ کو اپنے باپدادا کی میراث دے دوں۔“ (1-سلاطین 21:3) کیا نبوت ضدی یا اڑیل تھے؟ شاید بہت سے لوگوں کو ایسا لگے۔ لیکن دراصل نبوت شریعت میں لکھے اُس حکم پر عمل کر رہے تھے جس میں اِسرائیلیوں کو اپنے باپدادا کی میراث کو ہمیشہ کے لیے بیچنے سے منع کِیا گیا تھا۔ (احبار 25:23-28) نبوت خدا کا حکم توڑنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ بادشاہ اخیاب کے آگے سر اُٹھا کر وہ اپنی جان کو خطرے میں ڈال رہے ہیں، نبوت نے ثابت کِیا کہ وہ ایک دلیر آدمی ہیں اور یہوواہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں۔
اخیاب کو یہوواہ خدا کے حکم کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ وہ بہت ”اُداس اور ناخوش“ ہو کر اپنے گھر چلا گیا۔ پاک کلام میں ہم پڑھتے ہیں کہ اُس نے ”اپنے بستر پر لیٹ کر اپنا مُنہ پھیر لیا اور کھانا چھوڑ دیا۔“ (1-سلاطین 21:4) جب اِیزِبل نے دیکھا کہ اُس کا شوہر بچے کی طرح مُنہ بسور کر بیٹھ گیا ہے تو اُس نے ایک ایسی مکارانہ چال سوچی جس سے اخیاب کو تاکستان بھی مل جائے اور نبوت اور اُن کے خاندان کو بھی راستے سے ہٹا دیا جائے۔
ملکہ اِیزِبل نے جو چال چلی، اُس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کتنی بُری اور مکار عورت تھی۔ اِیزِبل جانتی تھی کہ شریعت کے مطابق دو لوگوں کی گواہی سے ہی کسی بات کو سچ ثابت کِیا جا سکتا ہے۔ (استثنا 19:15) اِس لیے اُس نے اخیاب کے نام سے شہر کے بڑےبڑے لوگوں کو خط لکھے۔ اِن میں دو ایسے آدمیوں کا بندوبست کرنے کا حکم دیا گیا تھا جو نبوت پر خدا اور بادشاہ کی توہین کرنے کا اِلزام لگائیں۔ اِیزِبل کی یہ چال کامیاب ہوئی۔ دو ’شریر آدمیوں‘ نے نبوت کے خلاف جھوٹی گواہی دی جس کی بِنا پر نبوت کو سنگسار کر دیا گیا۔ صرف اِتنا ہی نہیں، نبوت کے بیٹوں کو بھی موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ * (1-سلاطین 21:5-14؛ احبار 24: 16؛ 2-سلاطین 9:26) اخیاب نے اِیزِبل کو اپنی منمانی کرنے اور معصوم لوگوں کی جان لینے سے نہیں روکا۔
ذرا تصور کریں کہ ایلیاہ کو اُس وقت کیسا لگا ہوگا جب یہوواہ خدا نے اُن کو بتایا کہ بادشاہ اخیاب اور ملکہ اِیزِبل نے نبوت کے ساتھ کیا کِیا ہے۔ جب بُرے لوگ معصوم لوگوں پر زیادتی کرتے ہیں تو اِسے دیکھ کر واقعی بڑا دُکھ ہوتا ہے۔ (زبور 73:3-5، 12، 13) آجکل بھی لوگوں کے ساتھ اکثر نااِنصافی کی جاتی ہے۔ کبھی کبھار تو مذہبی رہنما بھی لوگوں کے ساتھ نااِنصافی کرتے ہیں۔ لیکن نبوت کے واقعے کو پڑھ کر ہمیں بڑی تسلی ملتی ہے کیونکہ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ یہوواہ خدا سے کوئی بات چھپی نہیں ہے۔ وہ سب کچھ دیکھتا ہے۔ (عبرانیوں 4:13) لیکن وہ نااِنصافی کرنے والوں کے خلاف کیا قدم اُٹھاتا ہے؟
”اَے میرے دُشمن کیا مَیں تجھے مل گیا؟“
یہوواہ خدا نے ایلیاہ کو صرف اخیاب کے پاس بھیجا ہی نہیں بلکہ اُنہیں یہ بھی بتایا کہ اُنہیں اخیاب کہاں ملے گا۔ خدا نے کہا: ”دیکھ وہ نبوؔت کے تاکستان میں ہے۔“ (1-سلاطین21:18) جب اِیزِبل نے اخیاب کو بتایا کہ تاکستان اب اُس کا ہے تو اخیاب فوراً اُٹھا اور اپنی اِس نئی جائیداد کو دیکھنے گیا۔ اخیاب نے ایک پَل کے لیے بھی نہیں سوچا کہ یہوواہ خدا سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ ذرا اخیاب کے اُن تاثرات کا تصور کریں کہ جو شاید تاکستان میں چہلقدمی کرتے وقت اُس کے چہرے پر ہوں۔ وہ اِس تاکستان کے بارے میں کئی خواب دیکھ رہا ہے۔ وہ سوچ رہا ہے کہ وہ یہاں ایک شاندار باغ بنائے گا۔ لیکن پھر اچانک ایلیاہ وہاں پر آ جاتے ہیں۔ اخیاب کا ہنستا مسکراتا چہرہ غصے اور نفرت سے بھر جاتا ہے۔ وہ بڑے غصے سے ایلیاہ سے کہتا ہے: ”اَے میرے دُشمن کیا مَیں تجھے مل گیا؟“—1-سلاطین 21:20۔
یہ بات کہہ کر اخیاب نے دو طرح سے بےوقوفی ظاہر کی۔ ایلیاہ سے یہ کہہ کر کہ ”کیا مَیں تجھے مل گیا؟“ اخیاب نے ظاہر کِیا کہ وہ اِس بات پر غور نہیں کر رہا کہ ایلیاہ کی بجائے دراصل یہوواہ خدا نے اُسے ڈھونڈ نکالا ہے۔ یہوواہ خدا تو پہلے سے ہی دیکھ رہا تھا کہ اخیاب کیا کر رہا ہے۔ اُس نے دیکھا تھا کہ اخیاب نے جانبُوجھ کر غلط کام کِیا اور اِیزِبل کی چال کامیاب ہونے پر خوش ہوا۔ اُس نے اخیاب کے دل کو دیکھا تھا جس میں تاکستان کو حاصل کرنے کی چاہت رحم، اِنصاف اور ہمدردی پر غالب آ گئی تھی۔ ایلیاہ کو ”اَے میرے دُشمن“ کہنے سے اخیاب نے ظاہر کِیا کہ وہ ایک ایسے آدمی سے نفرت کرتا ہے جو یہوواہ خدا کا دوست ہے اور جو اُسے تباہی کے راستے سے لوٹ آنے میں مدد کر سکتا ہے۔
ہم اخیاب کی بےوقوفی سے اہم سبق سیکھ سکتے ہیں۔ ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ یہوواہ خدا سب کچھ دیکھ سکتا ہے۔ جب وہ دیکھتا ہے کہ ہم سیدھی راہ سے بھٹک رہے ہیں تو ایک شفیق باپ کی طرح وہ چاہتا ہے کہ ہم سیدھی راہ پر لوٹ آئیں۔ ہماری مدد کرنے کے لیے وہ اکثر اپنے دوستوں کو اِستعمال کرتا ہے یعنی ایسے زبور 141:5۔
وفادار اِنسانوں کو جو ایلیاہ کی طرح دوسروں کو اُس کی باتیں بتاتے ہیں۔ اگر ہم خدا کے دوستوں کو اپنا دُشمن سمجھیں گے تو یہ کتنی بڑی غلطی ہوگی۔—ذرا اُس منظر کا تصور کریں جب ایلیاہ، اخیاب کو یہ جواب دیتے ہیں کہ ”تُو مجھے مل گیا۔“ ایلیاہ جانتے تھے کہ اخیاب ایک چور، خونی اور یہوواہ خدا سے برگشتہ اِنسان ہے۔ اِس طرح کے شخص کو ایسا جواب دینا واقعی بڑی ہمت کی بات تھی۔ ایلیاہ نے اخیاب کو بتایا کہ یہوواہ خدا نے اُسے سزا دینے کا فیصلہ کِیا ہے۔ یہوواہ خدا ایک معاملے کے ہر پہلو کو دیکھ سکتا ہے۔ اُس نے دیکھا تھا کہ بُرائی کو پھیلانے کا ذمےدار صرف اخیاب ہی نہیں بلکہ اُس کا پورا گھرانہ ہے اور اُن کی بُرائی نے بہت سے لوگوں کو متاثر کِیا ہے۔ اِس لیے ایلیاہ نے اخیاب کو بتایا کہ خدا اُس کی نسل کا صفایا کر دے گا اور اِیزِبل کو بھی سزا دے گا۔—1-سلاطین 21:20-26۔
ایلیاہ نے یہ نہیں سوچا کہ بُرائی اور نااِنصافی کرنے والوں کو کبھی سزا نہیں ملے گی۔ آجکل نااِنصافی کو دیکھ کر شاید بہت سے لوگوں کو لگے کہ بُرے لوگوں کو کبھی سزا نہیں ملے گی۔ لیکن اخیاب کے واقعے سے ہمیں یقین ہو جاتا ہے کہ یہوواہ خدا نہ صرف سب کچھ دیکھ رہا ہے بلکہ وہ اپنے مقررہ وقت پر نااِنصافی کرنے والوں کو سزا بھی دے گا۔ اُس کے کلام میں ہمیں یقین دِلایا گیا ہے کہ وہ وقت آنے والا ہے جب خدا ہر طرح کی نااِنصافی کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دے گا۔ (زبور 37:10، 11) شاید آپ سوچیں کہ ”کیا خدا اِنصاف کرنے کے لیے ہمیشہ سزا دیتا ہے یا وہ رحم سے بھی پیش آتا ہے؟“
”تُو دیکھتا ہے کہ اخیاؔب میرے حضور کیسا خاکسار بن گیا ہے؟“
جب ایلیاہ نے اخیاب کو یہوواہ خدا کا پیغام سنایا تو شاید ایلیاہ، اخیاب کے ردِعمل کو دیکھ کر حیران ہوئے ہوں۔ پاک کلام میں ہم پڑھتے ہیں: ”جب اخیاؔب نے یہ باتیں سنیں تو اپنے کپڑے پھاڑے اور اپنے تن پر ٹاٹ ڈالا اور روزہ رکھا اور ٹاٹ ہی میں لیٹنے اور دبے پاؤں چلنے لگا۔“ (1-سلاطین 21:27) کیا اخیاب نے اپنی بُری روِش سے توبہ کر لی؟
اخیاب نے کچھ حد تک اپنی روش کو بدل لیا۔ اخیاب خاکسار بن گیا جو کہ ایک مغرور اور سرکش شخص کے لیے بڑا مشکل کام ہے۔ لیکن کیا اُس نے دل سے توبہ کی؟ یہ جاننے کے لیے آئیں، بادشاہ اخیاب کا موازنہ بادشاہ منسّی سے کرتے ہیں۔ منسّی اُن بادشاہوں میں سے ایک تھے جو اخیاب کے بعد بادشاہ بنے۔ اُنہوں نے اخیاب سے بھی بُرے کام کیے۔ جب یہوواہ خدا نے منسّی کو سزا دی تو منسّی خاکسار بنے اور یہوواہ خدا سے مدد مانگی۔ صرف اِتنا ہی نہیں، اُنہوں نے ملک سے بُتپرستی سے منسلک ہر اُس چیز کو ختم کر دیا جو اُنہوں بنوائی تھی۔ اِس کے علاوہ اُنہوں نے نہ صرف خود یہوواہ خدا کی خدمت کرنے کی کوشش کی بلکہ اپنی رعایا کو بھی ایسا کرنے کو کہا۔ یوں منسّی نے ظاہر کِیا کہ اُنہوں نے اپنی بُری روِش چھوڑ دی ہے۔ (2-تواریخ 33:1-17) کیا اخیاب نے ایسا کچھ کِیا؟ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اُنہوں نے ایسا کچھ نہیں کِیا۔
کیا یہوواہ خدا نے اِس بات پر غور کِیا کہ اخیاب خاکسار بن گیا ہے؟ اِس سلسلے میں یہوواہ خدا نے ایلیاہ سے کہا: ”تُو دیکھتا ہے کہ اخیاؔب میرے حضور کیسا خاکسار بن گیا ہے؟۔ پس چُونکہ وہ میرے حضور خاکسار بن گیا ہے اِس لئے مَیں اُس کے ایّام میں یہ بلا نازل نہیں کروں گا بلکہ اُس کے بیٹے کے ایّام میں اُس کے گھرانے پر یہ بلا نازل کروں گا۔“ (1-سلاطین 21:29) کیا اِس کا مطلب یہ ہے کہ یہوواہ خدا نے اخیاب کو معاف کر دیا؟ نہیں۔ وہ صرف اُن لوگوں کو معاف کرتا ہے جو سچے دل سے توبہ کرتے ہیں۔ (حزقیایل 33:14-16) اخیاب نے جس حد تک اپنے کیے پر پچھتاوا ظاہر کِیا، یہوواہ خدا نے بھی اُسی حد تک اُس پر رحم کِیا۔ اخیاب اپنے جیتے جی اپنی نسل کا خاتمہ دیکھنے سے بچ گیا۔
یہوواہ خدا نے اخیاب کو جو سزا دینے کا فیصلہ کِیا، اُسے اُس نے بدلا نہیں۔ بعد میں یہوواہ خدا نے اپنے فرشتوں سے مشورہ کِیا کہ کس طرح اخیاب کو بہکا کر ایک ایسی جنگ میں بھیجا جائے جس میں وہ مارا جائے۔ اِس کی کچھ دیر بعد اخیاب کو یہوواہ خدا کے فیصلے کے مطابق سزا ملی۔ وہ ایک جنگ میں زخمی ہو گیا اور رتھ میں بیٹھے بیٹھے اُس کا اِتنا خون بہا کہ وہ مر گیا۔ پاک کلام میں اِس کے بعد کا واقعہ کچھ اِس طرح سے بیان کِیا گیا ہے: جب اخیاب کے رتھ کو دھویا جا رہا تھا تو کچھ کتوں نے آ کر اخیاب کے بہے ہوئے خون کو چاٹا۔ یوں یہوواہ خدا کے یہ الفاظ پورے ہوئے جو اُنہوں نے ایلیاہ نبی کے ذریعے اخیاب سے کہے تھے: ”اُسی جگہ جہاں کتوں نے نبوؔت کا لہو چاٹا کتّے تیرے لہو کو بھی چاٹیں گے۔“—1-سلاطین 21:19؛ 22:19-22، 34-38۔
اخیاب کے انجام نے نہ صرف ایلیاہ اور اِلیشع کو بلکہ خدا کے دیگر وفادار بندوں کو اِس بات کا یقین دِلایا ہے کہ خدا نبوت کے ایمان اور دلیری کو نہیں بھولا تھا۔ اِنصاف کا خدا بُرے لوگوں کو سزا ضرور دیتا ہے، چاہے وہ ایسا فوراً کرے یا کچھ دیر بعد۔ اِس کے علاوہ وہ دیکھتا ہے کہ اگر ایک شخص پر رحم کِیا جانا چاہیے تو وہ ایسا ضرور کرتا ہے۔ (گنتی 14:18) ایلیاہ کافی عرصے سے بادشاہ اخیاب کے بُرے کاموں کو دیکھ رہے تھے لیکن اخیاب کے انجام سے اُنہوں نے دیکھ لیا کہ یہوواہ خدا وقت آنے پر بُرے لوگوں کے خلاف کارروائی ضرور کرتا ہے۔ کیا آپ بھی کبھی نااِنصافی کا شکار ہوئے ہیں؟ کیا آپ اُس وقت کے منتظر ہیں جب خدا آپ کو اِنصاف دِلائے گا؟ اِس سلسلے میں ایلیاہ کی مثال پر عمل کرنے سے بہت فائدہ ہوگا۔ ایلیاہ نااِنصافی کے باوجود ثابت قدمی سے اِلیشع کے ساتھ مل کر لوگوں کو یہوواہ خدا کا پیغام سناتے رہے۔
^ پیراگراف 3 بعل کو بارش اور فصلوں کی پیداوار کے دیوتا کے طور پر پوجا جاتا تھا۔ لیکن یہوواہ خدا نے ساڑھے تین سال تک ملک اِسرائیل میں بارش نہیں ہونے دی جس سے اُس نے ثابت کِیا کہ بعل دیوتا کوئی طاقت نہیں رکھتا۔ (1-سلاطین 18 باب) مینارِنگہبانی یکم جنوری 2008ء کے شمارے میں مضمون ”اُن جیسا ایمان پیدا کریں“ کو دیکھیں۔
^ پیراگراف 13 اِیزِبل نے نبوت کے بیٹوں کو شاید اِس لیے مروایا کیونکہ اُسے ڈر تھا کہ نبوت کی موت بعد تاکستان اُن کے وارثوں کا ہو جائے گا۔