آپ اپنے غصے پر کیسے قابو پا سکتے ہیں؟
ایک کالج میں باسکٹ بال کے کوچ کو نوکری سے اِس لیے نکال دیا گیا کیونکہ وہ اپنے غصے کو قابو میں نہیں رکھتا تھا۔
ایک چھوٹا بچہ اپنی بات نہ پوری ہونے پر شدید غصے میں آ جاتا ہے۔
ایک ماں اور بیٹا اکثر ایک دوسرے پر چیختے چلّاتے ہیں کیونکہ بیٹا اپنے کمرے میں ہر طرف چیزیں بکھیرے رکھتا ہے۔
ہم سب نے دوسروں کو غصے میں آتے دیکھا ہے اور بےشک ہم خود بھی کبھی کبھار غصے میں آ جاتے ہیں۔ اگرچہ ہم سوچتے ہیں کہ غصہ ایک ایسی خامی ہے جس پر ہمیں قابو پانا چاہیے لیکن کبھی کبھار ہمیں لگتا ہے کہ ہمارے پاس غصہ کرنے کی جائز وجہ ہے، خاص طور پر اُس وقت جب ایک شخص کوئی ایسا کام کرتا ہے جو ہماری نظر میں غلط ہے۔ امریکی نفسیاتی ایسوسیایشن نے ایک مضمون شائع کِیا جس میں لکھا ہے: ”غصہ آنا عام سی بات ہے اور یہ عموماً صحت کے لیے اچھا ہوتا ہے۔“
یہ بات شاید ہمیں اُس وقت اَور بھی ٹھیک لگے جب ہم یسوع مسیح کے شاگرد پولُس کی ایک بات پر غور کرتے ہیں۔ پولُس یہ بات سمجھتے تھے کہ ہر شخص کو کبھی نہ کبھی غصہ آ سکتا ہے۔ اِس لیے اُنہوں نے لکھا: ”غصہ تو کرو مگر گُناہ نہ کرو۔ سورج کے ڈوبنے تک تمہاری خفگی نہ رہے۔“ (افسیوں 4:26) لیکن کیا پولُس کی بات کا یہ مطلب ہے کہ ہمیں اپنا غصہ نکال دینا چاہیے؟ یا کیا ہمیں اِسے قابو میں رکھنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے؟
کیا آپ کو غصہ کرنا چاہیے؟
ایسا لگتا ہے کہ جب پولُس یہ الفاظ لکھ رہے تھے تو اُن کے ذہن میں وہ بات تھی جو زبور میں لکھی ہے: ”اگر کوئی چیز تجھے تنگ کر دے تو تُو غضبناک ہو سکتا ہے، لیکن تُو گُناہ کبھی نہ کرنا۔“ (زبور 4:4، اِیزی ٹو رِیڈ ورشن) لیکن جب پولُس نے یہ بات لکھی تو اُن کا کیا مطلب تھا؟ غور کریں کہ اُنہوں نے کچھ آیتوں کے بعد لکھا: ”ہر طرح کی تلخمزاجی اور قہر اور غصہ اور شوروغل اور بدگوئی ہر قسم کی بدخواہی سمیت تُم سے دُور کی جائیں۔“ (افسیوں 4:31) اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولُس یہ حوصلہافزائی کر رہے تھے کہ ہمیں اپنے غصے کو قابو میں رکھنا چاہیے۔ دلچسپی کی بات ہے کہ امریکی نفسیاتی ایسوسیایشن نے اپنے مضمون میں یہ بات بھی لکھی: ”تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ جب ایک شخص اپنا غصہ نکالتا ہے تو وہ اَور زیادہ غصے میں آ جاتا ہے۔ اور اِس سے مسئلہ بھی حل نہیں ہوتا۔“
لیکن ہم اپنے غصے کو دُور کیسے کر سکتے ہیں اور اِس سے ہونے والے نقصان سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ اِس سلسلے میں بادشاہ سلیمان نے لکھا: ”آدمی کی تمیز اُس کو قہر کرنے میں دھیما بناتی ہے۔ اور خطا سے درگذر کرنے میں اُس کی شان ہے۔“ (امثال 19:11) جب ایک شخص میں غصے کا لاوا اُبل رہا ہو تو اُس کی ”تمیز“ اُسے قہر کرنے میں دھیما کیسے بنا سکتی ہے؟
تمیز قہر کرنے میں دھیما کیسے بناتی ہے؟
امثال 19:11 میں لفظ تمیز ایسی صلاحیت کی طرف اِشارہ کرتا ہے جو ایک شخص کو معاملے کی اصل وجہ جاننے کے قابل بناتی ہے۔ اِس کی وجہ سے وہ یہ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے کہ کسی نے فلاں بات کیوں کہی یا فلاں کام کیوں کِیا۔ لیکن یہ صلاحیت اُس وقت ہمارے کام کیسے آتی ہے جب کوئی ہمیں غصہ دِلاتا ہے؟
جب ہم نااِنصافی ہوتے دیکھتے ہیں تو شاید ہمیں بہت غصہ آ جائے۔ لیکن اگر ہم غصے میں آپے سے باہر ہو جائیں گے تو ہو سکتا ہے کہ ہم خود کو یا کسی اَور کو نقصان پہنچا دیں۔ جس طرح اگر آگ پر قابو نہ پایا جائے تو یہ پورے گھر کو جلا کر راکھ کر سکتی ہے اُسی طرح اگر غصے پر قابو نہ پایا جائے تو یہ ہماری نیک نامی کو اور اِنسانوں یہاں تک کہ خدا کے ساتھ بھی ہمارے رشتے کو تباہ کر سکتا ہے۔ اِس لیے جب آپ کو لگے کہ آپ کے اندر غصے کی چنگاری بھڑکنے والی ہے تو اُس وقت ضروری ہے کہ آپ معاملے کو پوری طرح سے سمجھنے کی کوشش کریں۔ ایسا کرنے سے آپ اپنے غصے کو قابو میں رکھنے کے قابل ہو جائیں گے۔
بادشاہ سلیمان کے والد داؤد ایک دفعہ اِتنے غصے میں آ گئے کہ وہ قتل و غارت کرنے والے تھے۔ لیکن پھر جب اُنہوں نے معاملے کو پوری طرح سے سمجھا تو اُنہوں نے اپنا فیصلہ بدل لیا۔ ہوا یہ تھا کہ داؤد اور اُن کے ساتھیوں نے یہودیہ کے بیابان میں نابال نامی آدمی کی بھیڑوں کی حفاظت کی تھی۔ پھر جب بھیڑوں کے بال کترنے کا وقت آیا تو داؤد نے اپنے چند ساتھیوں کو بھیج کر نابال سے کھانے پینے کی کچھ چیزیں مانگیں۔ اِس پر نابال نے کہا: ”مَیں اپنی روٹی اور پانی اور ذبح کیے ہوئے جانوروں کا گوشت جو میرے بال کترنے والوں کے لیے ہے، لے کر اُن آدمیوں کو کیوں دوں جو پتا نہیں کہاں سے آئے ہیں؟“ ایسا کھرا جواب دے کر نابال نے داؤد کی کتنی بےعزتی کی! جب داؤد کو یہ پتہ چلا تو وہ اپنے 400 ساتھیوں کو لے کر نابال اور اُس کے گھرانے کا نامونشان مٹانے کے لیے نکل پڑے۔—1-سموئیل 25:4-13، نیو اُردو بائبل ورشن۔
جب نابال کی بیوی ابیجیل کو ساری بات پتہ چلی تو وہ فوراً داؤد سے ملنے گئیں۔ اُنہوں نے داؤد کے قدموں پر گِر کر اُن سے کہا: ”ذرا اپنی لونڈی کو اجازت دے کہ تیرے کان میں کچھ کہے اور تُو اپنی لونڈی کی عرض سُن۔“ پھر ابیجیل نے داؤد کو بتایا کہ نابال کتنے احمق ہیں۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ بدلہ لینے اور خون بہانے سے داؤد کو بہت پچھتاوا ہوگا۔—1-سموئیل 25:24-31۔
ابیجیل کی بات پر غور کرنے سے داؤد اپنے غصے پر قابو پانے کے قابل کیسے ہوئے؟ سب سے پہلے تو داؤد یہ بات سمجھ گئے کہ حماقت نابال کی فطرت میں ہے۔ اِس کے علاوہ اُنہوں نے غور کِیا کہ بدلہ لینے سے وہ بہت سے معصوم لوگوں کا بھی خون بہا دیں گے۔ داؤد کی طرح ہم بھی کبھی کبھار شدید غصے میں آ سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ایک تحقیقی اِدارے مایو کلینک نے غصے کو قابو میں رکھنے کے سلسلے میں ایک مضمون شائع کِیا جس میں لکھا تھا: ”غصہ آنے پر گہری سانس لیں اور 10 تک گنیں۔“ جب آپ کو غصہ آتا ہے تو ایک پَل کے لیے رُک کر سوچیں کہ مسئلے کی جڑ کیا ہے اور اگر آپ غصے میں آ کر کچھ کریں گے تو اِس کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ ایسا کرنے سے آپ قہر کرنے میں دھیمے ہوں گے یہاں تک کہ آپ کا غصہ ختم ہو جائے گا۔—1-سموئیل 25:32-35۔
آج بھی بہت سے لوگ اپنے غصے کو قابو میں رکھنے کے قابل ہوئے ہیں۔ ذرا سباسٹیان کی مثال پر غور کریں۔ وہ 23 سال کی عمر میں ملک پولینڈ کی جیل میں تھے۔ جیل میں اُنہوں نے خدا کے کلام کی تعلیم حاصل کی اور سیکھا کہ وہ اپنے غصے کو قابو میں کیسے رکھ سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ”سب سے پہلے مَیں پورے مسئلے کے بارے میں سوچتا ہوں۔ پھر مَیں بائبل کے مشورے پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ اِس میں سب سے بہترین رہنمائی پائی جاتی ہے۔“
ایک آدمی جس کا نام سیتسو ہے، وہ بھی اپنے غصے پر قابو پانے کے لیے کچھ ایسا ہی کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے: ”جب کام کی جگہ پر کوئی مجھے غصہ دِلاتا تھا تو مَیں اُس پر چیختا چلّاتا تھا۔ لیکن پاک کلام کا مطالعہ کرنے سے مَیں نے سیکھا کہ کسی پر بھی چیخنے چلّانے کی بجائے مَیں یہ سوچوں کہ اصل میں غلطی کس کی ہے؟ کیا اِس میں میری غلطی تو نہیں ہے؟“ ایسے سوالوں پر غور کرنے سے سیتسو کا غصہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔
سچ ہے کہ کبھی کبھار اپنے غصے کو قابو میں رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ لیکن خدا کے کلام کے مشورے آپ کے بہت کام آ سکتے ہیں۔ اِن پر عمل کرنے اور خدا سے مدد مانگنے سے آپ اپنے غصے کو قابو میں رکھ سکتے ہیں۔