کیا یہوواہ کے گواہ لوگوں کو مذہب بدلنے پر مجبور کرتے ہیں؟
جی نہیں، ہم ایسا نہیں کرتے۔ ہم نے اپنے رسالے مینارِنگہبانی کے ایک شمارے میں کہا تھا کہ ”لوگوں پر مذہب تبدیل کرنے کے لئے دباؤ ڈالنا غلط ہے۔“ a ہم اِن وجوہات کی بِنا پر لوگوں کو مذہب بدلنے پر مجبور نہیں کرتے:
یسوع مسیح نے کبھی بھی لوگوں پر دباؤ نہیں ڈالا کہ وہ اُن کی تعلیمات کو قبول کریں۔ وہ جانتے تھے کہ کم ہی لوگ اُن کے پیغام کو قبول کریں گے۔ (متی 7:13، 14) جب یسوع مسیح کے کچھ شاگرد اُن کی تعلیمات کو رد کر کے چلے گئے تو یسوع مسیح نے اُنہیں رُکنے پر مجبور نہیں کِیا۔—یوحنا 6:60-62، 66-68۔
یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں کو سکھایا کہ وہ زبردستی لوگوں کا مذہب تبدیل نہ کرائیں۔ اُنہوں نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ وہ اُن لوگوں کو خدا کی بادشاہت کی خوش خبری سنائیں جو اِسے خوشی سے قبول کریں۔—متی 10:7، 11-14۔
خدا کو یہ پسند نہیں کہ لوگوں کو مذہب بدلنے پر مجبور کِیا جائے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ لوگ پورے دل سے اُس کی عبادت کریں۔—اِستثنا 6:4، 5؛ متی 22:37، 38۔
کیا ہم لوگوں کا مذہب تبدیل کرانے کے لیے تبلیغی کام کرتے ہیں؟
ہم کتابِ مُقدس کا پیغام ”زمین کی اِنتہا تک“ پہنچاتے ہیں اور گھر گھر اور عوامی جگہوں پر بادشاہت کی خوش خبری سناتے ہیں۔ (اعمال 1:8؛ 10:42؛ 20:20) یسوع مسیح کے اِبتدائی پیروکاروں کی طرح کبھی کبھار ہم پر بھی یہ اِلزام لگایا جاتا ہے کہ ہم لوگوں کو مذہب بدلنے پر اُکسا کر قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ (اعمال 18:12، 13) لیکن ایسے اِلزامات غلط ہیں۔ ہم اپنے عقیدے دوسروں پر تھوپنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اِس کی بجائے ہم مانتے ہیں کہ ہر شخص کو یہ آزادی ہونی چاہیے کہ وہ کسی مذہب کے بارے میں تعلیم حاصل کرے اور اِس کے بعد یہ فیصلہ کرے کہ وہ اِس کی پیروی کرے گا یا نہیں۔
بہت سے لوگ مسیحی ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن اپنے کاموں سے یسوع مسیح کو بدنام کرتے ہیں۔ وہ زبردستی لوگوں کا مذہب تبدیل کراتے ہیں، مذہب کی آڑ میں سیاسی کام کرتے ہیں اور اپنے ارکان کی تعداد بڑھانے کے لیے لوگوں کو لالچ دیتے ہیں۔ b لیکن ہم ایسا کوئی کام نہیں کرتے۔
کیا ایک شخص کو مذہب بدلنے کا حق ہے؟
جی ہاں، کتابِ مُقدس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگوں کو مذہب بدلنے کا حق حاصل ہے۔ اِس میں بہت سے ایسے لوگوں کی مثالیں درج ہیں جنہوں نے اپنے رشتےداروں کے مذہب کی پیروی کرنے کی بجائے اپنی مرضی سے سچے خدا کی عبادت کرنے کا فیصلہ کِیا۔ اِن میں ابراہام نبی، رُوت، پولُس رسول اور اتھینے کے کچھ لوگ شامل ہیں۔ (یشوع 24:2؛ رُوت 1:14-16؛ اعمال 17:22، 30-34؛ گلتیوں 1:14، 23) کتابِ مُقدس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ایک شخص اپنی مرضی سے خدا کی عبادت چھوڑنے کا بھی فیصلہ کر سکتا ہے حالانکہ یہ سمجھ داری کی بات نہیں ہوگی۔—1-یوحنا 2:19۔
اِنسانی حقوق کے عالمی منشور میں بھی اِس بات کی حمایت کی گئی ہے کہ ایک شخص کو مذہب بدلنے کا حق حاصل ہے۔ اِس دستاویز میں لکھا ہے کہ ”ہر اِنسان کو ... آزادئ مذہب کا پورا حق ہے۔ اِس حق میں مذہب یا عقیدے کو تبدیل کرنے ... کی آزادی بھی شامل ہے۔“ اِس میں یہ بھی لکھا ہے کہ ہر اِنسان کو حق ہے کہ وہ ”علم اور خیالات کی تلاش کرے۔ اِنہیں حاصل کرے اور اِن کی تبلیغ کرے۔“ c اِن اِقتباسات سے یہ نتیجہ اخذ کِیا جا سکتا ہے کہ ہر شخص کو اپنے عقیدوں کے مطابق زندگی گزارتے رہنے اور اُن عقیدوں کو رد کرنے کا حق حاصل ہے جن سے وہ متفق نہیں ہے۔
کیا مذہب بدلنے سے خاندان کی بدنامی ہوتی ہے؟
ہم ایسا نہیں سمجھتے۔ کتابِ مُقدس میں لکھا ہے کہ سب لوگوں کی عزت کریں، چاہے اُن کا مذہب کوئی بھی ہو۔ (1-پطرس 2:17) اِس کے علاوہ اِس میں حکم دیا گیا ہے کہ بچے اپنے والدین کی عزت کریں۔ اِس لیے یہوواہ کے گواہ اپنے والدین کی عزت کرتے ہیں، چاہے اُن کے والدین کے عقیدے اُن سے فرق ہی ہوں۔—اِفسیوں 6:2، 3۔
لیکن ہر شخص کتابِ مُقدس کے نظریے سے متفق نہیں ہے۔ ایک عورت نے جس کی پرورش زمبیا میں ہوئی، کہا: ”ہماری برادری میں مذہب بدلنے کو ... خاندان اور برادری سے بےوفائی اور غداری سمجھا جاتا ہے۔“ جب اُس عورت نے یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ بائبل کورس شروع کِیا تو وہ تقریباً 20 سال کی تھی اور تھوڑے ہی عرصے بعد اُس نے اپنا مذہب چھوڑ کر یہوواہ کی گواہ بننے کا فیصلہ کِیا۔ وہ کہتی ہے: ”میرے والدین بار بار مجھ سے کہتے تھے کہ وہ مجھ سے ناراض ہیں اور مَیں نے اُن کی ناک کٹوا دی ہے۔ اُن کی باتوں سے مجھے بہت تکلیف ہوتی تھی کیونکہ مَیں اُن کو خوش دیکھنا چاہتی تھی۔ ... ٹھیک ہے کہ مَیں نے مذہبی روایتوں کی پابندی کرنے کی بجائے یہوواہ خدا کی خدمت کرنے کا فیصلہ کِیا لیکن اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مَیں اپنے خاندان سے بےوفائی کر رہی ہوں۔“ d
a مینارِنگہبانی 1 جنوری 2002ء، صفحہ 12، پیراگراف 15 کو دیکھیں۔
b مثال کے طور پر 785ء میں شہنشاہ شارلمین نے یہ حکم جاری کِیا کہ زاکسن میں جو لوگ مسیحی بننے سے اِنکار کریں، اُنہیں سزائےموت دے دی جائے۔ اِس کے علاوہ 1555ء میں اوگسبرگ کے امن معاہدے میں یہ فیصلہ کِیا گیا کہ ہر حکمران یا تو رومن کیتھولک ہوگا یا پھر لوتھری اور رعایا کو اُس کا مذہب اپنانا ہوگا۔ جو لوگ ایسا کرنے سے اِنکار کرتے، اُنہیں ملک بدر کر دیا جاتا۔
c ایسے ہی حقوق اِن معاہدوں میں بھی شامل ہیں: افریقی معاہدہ برائے اِنسانی اور عوامی حقوق، امریکی معاہدہ برائے اِنسانی حقوق اور فرائض، عرب معاہدہ برائے اِنسانی حقوق 2004ء، آسیان (جنوب مشرقی ایشیائی اقوام کی تنظیم) معاہدہ برائے اِنسانی حقوق، بین الاقوامی معاہدہ برائے شہری اور سیاسی حقوق اور یورپی کنونشن برائے اِنسانی حقوق۔ لیکن جو حکومتیں اِن معاہدوں کے تحت ہیں، وہ اِن میں درج شرائط پر عمل کرنے کے سلسلے میں فرق فرق رائے رکھتی ہیں۔
d یہوواہ پاک کلام کے مطابق سچے خدا کا ذاتی نام ہے۔